شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
کیا کریں ذکر مریضوں کی شفایابی کا
خود مسیحا بھی ترستے ہیں مسیحائی کو
۔کچھ روز قبل ایک سرکاری ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا، منظرکشی کروں تو الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ہر طرف درد سے تڑپتے، تکلیف جھیلتے مریض اور ان کے تیمار دار جن کی آنکھوں میں امید اور آنسو سبھی کچھ تھا۔ہسپتال میںکھڑا یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے کچھ غیر معمولی احساس ہوا، سوچنے لگا کہ آخر کیا ہوا ہے اور یہ کیسی ہلچل ہے؟ ایک شخص بچے کو گود میں لیے پریشانی کے عالم میں دوڑ رہا تھا اس کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،پریشانی کے عالم میں اس شخص سے بات بھی نہیں ہورہی تھی۔میری نظریں ابھی اس منظر سے ہٹ نہیں پائی تھیں کہ دوسری طرف نگاہ اٹھ گئی۔۔۔سولہ سترہ برس کی بچی ایک بڑھیا کا ہاتھ تھامے سفید گائون پہنے ڈاکٹر کے پیچھے ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کی صدا بلند کررہی تھی۔یہ سب دیکھ کر دل بے ساختہ کہہ اٹھا کیا یہ مسیحائی ہے؟ اور یہ کیسی مسیحائی ہے۔مسائل جو بھی ہوں لیکن مسیحا تو فرشتہ ہوتا ہے، مسیحا تو بغیر دمڑی کے جان بچانے کیلئے اپنے تائیں پوری کوشش کردیتا ہے لیکن۔۔مسیحا اور مسیحائی پر اب سیر حاصل بات ہوگی۔یہاں سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سمز)کے پرنسپل ڈاکٹر محمد امجد کی شخصیت بطور مسیحا سامنے آئی ہے جو عام اور خاص مریض کے فرق کو دور کرنے کی سعی میں مصروف ِعمل ہیں۔ کاش !ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جائے تا کہ شعبہ طب میں بہار کا سماں پیدا ہو سکے۔شعبہ طب سے وابستہ ہر فرد چاہے ڈاکٹر ہو، نرس یا دوسرا سٹاف وہ اپنی جگہ اہم ہے اور اگر یہ کہا جائے کسی کی جان بچانے اور تکلیف کم کرنے میں مدد دینے میں سبھی کا کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے تو کیا غلط ہوگا۔ اسی لیے میڈیکل کا شعبہ منفرد ہے جس سے کوئی زندہ معاشرہ انکار نہیں کرسکتا۔مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کے بہتر علاج کے لیے جہاں ایک ڈاکٹر کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے، وہیں مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات اور خدمات کی فراہمی میڈیکل سٹاف کے فرائض میں شامل ہے۔ میڈیکل سٹاف کی ذرا سی توجہ جہاں مریض کی جان بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے، وہیں ذرا سی غفلت کئی زندگیوں کے خاتمے اور ان کی تکالیف بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ کچھ روز قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے دوران آپریشن عورت کے پیٹ میں تولیہ چھوڑ دیا،ڈاکٹر کو جب اس بات کا احساس ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔بے شمار ڈاکٹر مسیحائی کے بھیس میں انسانی جانوں کاسودا کرتے ہیں، کچھ ذی شعار کے الفاظ تو یہ ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ملک بھر میں قانوناً ہر قسم کے کام کا معاوضہ طے کیا جاتا ہے،معاوضہ قانون اور حکومت طے کرتی ہے ان میں سے کسی بھی کاروباری پر قانونی دفعات عائد کرنے کی کم سے کم گنجائش ضرور ہے۔ایک طرف تو محکمہ صحت، اس حوالے سے عالمی قوانین پر عمل درآمد اور اصول و ضوابط لاگو کروانے کے لیے سرگرم رہتا ہے تو کبھی ہیلتھ کیئر کمیشن، کبھی فارمیسی کونسل اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی صورت کام کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی کارروائیوں سے یوں لگتا ہے جیسے ریاست ماں ہونے کا حق ادا کررہی ہے، لیکن جب ریگولرائزیشن کی طرف جائیں تو اتنے قوانین اور شرائط ہیں کہ کوئی بھی شخص اسے پورا نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی فائل کو پہیے لگتے ہیںتوہر دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔سرکاری ہسپتال، ماہرین امراض سے خالی پڑے ہوئے ہے اور لوگوں کو لامحالہ اپنی زندگی بچانے کی خاطر اپنا گھر، زمین، جائیداد اور وقت پڑنے پرسب کچھ نیلام کرناپڑتاہے۔دنیا میں معزز پیشے بہت ہیں لیکن ملک میں ڈاکٹر کو لوگ عزت دیتے ہیں کیونکہ وہ ایک مسیحا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ پیشہ کاروبار بنتا گیا۔ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے اور ڈاکٹرمعاشرے اور انسانیت کا مسیحا ہوتا ہے اور اس کا نصب العین عوام الناس کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ عبادت سے جنت مل جاتی ہے۔سر کاری ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانا، ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ارباب اختیار ابھی اتنے با اختیار نہیں ہوئے کہ وہ غریبوں اور عام آدمی کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کر سکیں۔ اس موقع پر پھر اہل خیر اور مخیر حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اپنے کمزور لوگوں کا بھی حصہ نکالیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کی جان بچانا ہی اصل مسیحائی ہے اس لئے زندگیوں کوبچائیں اور ان سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں۔
٭…٭…٭