سلامتی کونسل کی طرف سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی توثیق کے بعد اُمید تھی کہ وہ عالمی برادری کی تائید اور معاونت سے اپنا کھویا ہوا حق واپس پالیں گے اور بھارت اپنا وعدہ ایفاء کرنے پر مجبور ہوجائے گا مگر یہ اُمید ایک خوش فہمی ثابت ہوئی کیونکہ جب تک مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی فوجی گرفت مضبوط نہ تھی‘ تب تک وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے وعدے پر قائم رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں ہی اس نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ مستحکم کرلیا تو اس وعدے سے منحرف ہوکر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے ڈالا۔ کشمیری عوام تسلسل سے عالمی برادری کی توجہ بھارت کی اس وعدہ خلافی کی طرف مبذول کرواتے رہے لیکن انکی آہ و بکا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی جاتی رہی۔ اس مایوس کن صورتحال سے مجبور ہوکر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے 1988ء میں از خود جدوجہد آزادی کا آغاز کردیا۔ عوامی جذبات لاوے کی مانند پھٹ پڑے جس نے پوری مقبوضہ وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج یہ تحریک عروج پر ہے۔ بھارت نے آزادی کی اس تحریک کو کچلنے کی خاطر تقریباً 9لاکھ فوج وہاں تعینات کر رکھی ہے جو نہتے کشمیریوں پر ظلم و جبر کے ہولناک ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ بھارتی استبداد کیخلاف نکلنے والے احتجاجی جلوسوں کے شرکاء کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں لاتعداد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کو اغواء کرکے جعلی پولیس مقابلوں میں شہید کردیا جاتا ہے اور انکے جسد خاکی دور دراز مقامات پر سپرد خاک کردیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی لاشوں کو مسخ کرکے مختلف مقامات پر پھینک دیا جاتا ہے۔ بھارتی فوج کشمیری خواتین کیخلاف آبروریزی کو اسی طرح بطور جنگی ہتھیار استعمال کررہی ہے جس طرح 1990ء کی دہائی میں سرب فوج کے درندوں نے بوسنیا ہر زیگو وینا کی مسلمان خواتین کیخلاف کیا تھا۔ بھارت کے ان تمام انسانیت سوز مظالم کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکے داروں کا ضمیر بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی بساط کے چالباز مغربی کھلاڑیوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کے مظلوم مسلمانوں کی ہرگز کوئی داد رسی نہیں کرنی تاہم جہاں کہیں معاملہ غیر مسلموں کے حقوق کا ہو‘ یہ فی الفور میدان میں کود پڑتے ہیں۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔عالمی برداری نریندرا مودی کی ہندو توا پر مبنی فاشسٹ پالیسیوں کو فی الحال اسی طرح نظر انداز کررہی ہے جس طرح اس نے ابتداء میں نازی جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے صرفِ نظر کیا تھا اور پھر اسکا نتیجہ بھی بھگت لیا تھا۔عالمی برداری کی ان ناانصافیوں اور منافقتوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حوصلے بلند ہیں اور چناروں میں بھڑکتی آگ روز بروز شدت پکڑ رہی ہے۔ -5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا‘ لاکھوں غیر کشمیری ہندوئوں کی مقبوضہ وادی میں آباد کاری کے ذریعے مسلمانوں کو اقلیت میںتبدیل کرنے کی مذموم سازش اور مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کی صورت دے دینے کے بھارتی اقدامات بھی کشمیری عوام کے جذبۂ حریت کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کے بلند حوصلوں اور استقامت کا ایک اہم سبب پاکستانی عوام کا انکے پیچھے چٹان کی مانند کھڑے ہونا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارا دیرینہ اور آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین بھی -5اگست 2019ء کے بعد عالمی منظر نامے پر کشمیریوں کا سب سے بڑا وکیل اور ترجمان بن کر ابھرا ہے۔ اُس دن سے آج تک وہ تین بار سلامتی کونسل میں کشمیر کی صورت حال پر بحث کروا چکا ہے۔ 5جنوری 2020ء کو سلامتی کونسل کی کشمیر کے متعلق منظور کردہ قراردادوں کی 72ویں سالگرہ تھی۔ اس موقع پر چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھے جانیوالے اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے ’’کشمیر پر چین اور پاکستان کا ایکا‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں مذکورہ قراردادوں پر عمل درآمد کا دو ٹوک مطالبہ کیا۔ امریکی آشیرباد سے جنوبی ایشیاء کا تھانیدار بننے کی بھارتی کوششوں کو بھی چین پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا۔ چنانچہ وہ لداخ‘ تبت اور سکم کی چین بھارت سرحدوں پر بھارتی سینا کی چھترول کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ مزید برآں چین کی مؤثر حمایت کی بدولت نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی اب بھارت کی بالادستی کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یورپی اور برطانوی پارلیمان کے متعدد اراکین بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اظہار تشویش کرچکے ہیں۔ اگرچہ نو منتخب امریکی صدر جوزف بائیڈن اور نائب صدر کمیلا ہیرس اپنی انتخابی مہم کے دوران مسئلہ کشمیر کی صورتحال پر باتیں کرتے رہے ہیں مگر ہمیں ان سے زیادہ اُمیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ایک تو امریکہ بھارت کو چین کیخلاف اپنا فطری حلیف تصوّر کرتا ہے‘ دوسرا امریکی سرمایہ کاروں کیلئے ایک ارب سے زائد آبادی کا حامل یہ ملک اقتصادی لحاظ سے بڑی کشش رکھتا ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کیلئے جو امر انتہائی تشویش کا حامل ہونا چاہیے‘ وہ یہ ہے کہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت منعقدہ استصوابِ میں بھارت کے حق میں رائے دیئے جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیشگی سدباب کیلئے پاکستان کو چین‘ ترکی اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر کوئی حکمت عملی وضع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ (جاری)
جدوجہد آزادیٔ کشمیر ایک نازک دوراہے پر
Feb 07, 2021