پی ڈی ایم ،26 مارچ اور بنگلہ دیش

Feb 07, 2021

علی انور

پی ڈی ایم کے اعلانات میں بات استعفوں سے ہوتی ہوئی سینیٹ الیکشن کے بائیکاٹ کو بائی پاس کرتی ہوئی اب لانگ مارچ تک آ گئی ہے۔ پی ڈی ایم نے 26 مار چ کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اور فی الحال استعفے اور سینیٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا معاملہ گول کر دیا گیا ہے بلکہ حصہ بقدر جثہ لینے کیلئے مل کر سینیٹ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم نے عدم اعتماد اور استعفوں سے متعلق کسی بھی فیصلے کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا ہے۔اس سے قبل پی ڈی ایم نے اعلان کیا تھا کہ وہ 31 جنوری تک اجتماعی استعفے دیں گے لیکن اب حال یہ ہے کہ خود جائے پناہ تلاش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سینیٹ کے الیکشن میں کچھ جوڑ توڑ اور پیسوں کی بندر بانٹ کر کے سیٹیں حاصل کر لی جائیں۔ حکومت نے کہا کہ اوپن بیلٹنگ ہونی چاہئے جس کیلئے ماضی میں یہی اپوزیشن جماعتیں سب سے زیادہ زور بھی لگاتی رہیں لیکن جب حکومت نے اس کے متعلق اعلان کیا تو اب یہ اوپن بیلٹنگ سے راہ فرار اختیار کر ر ہے ہیں جو اس بات کا علامت ہے کہ اپوزیشن ماضی کے سیاسی حربوں کو تبدیل کرنے کا قطعا َارادہ نہیں رکھتی وگرنہ آئینی ترمیم کا سینیٹ اور اسمبلی سے پاس ہونا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ بانت بانت کی بولیاں بولنے والے ایک بینر تلے اکٹھے ضرور ہوئے لیکن مفادات سب کے الگ ہیں اور ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا دی جائے تا کہ اس کا نام بھی نہ آئے اور شہیدوں کی لسٹ میں نام بھی لکھوا لیں کہ ہم نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو تھی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس اس وقت حکومت کے خلاف کرنے کو یابولنے کو کچھ نہیں ہے ۔وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے جبکہ میرے خیال میں اس غبارے میں شروع سے ہی ہوا تھی ہی نہیں تھوڑا سا پانی بھر کر غبارے کو پھلایا گیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کے اس غبارے سے پانی بخارات بن کر اڑ رہا ہے ۔ ن لیگ چاہتی تھی کہ نہ ہم کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے جبکہ پیپلز پارٹی کی کوشش رہی ہے کہ اپوزیشن کا سہارا لے کر سندھ میں ہونے والی کرپشن اور نا اہلی سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی ہے جس کیلئے اس نے سکھ کا سانس لیا ہے۔مولانا فضل الرحمن خود تو اسمبلی میں موجود نہیں ہیں اور اس اسمبلی کو علی الاعلان جعلی اور دھاندلی زدہ اسمبلی کہتے ہیں تو دوسری جانب ان کے بیٹے سمیت ان کی پارٹی کے اراکین نہ صرف اسمبلی میں موجود ہیں بلکہ مراعات بھی لے رہے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کے دوران ٹی اے ڈی اے اور مکمل الائونسز سمیٹ رہے ہیں(جب ایک چیز باپ کیلئے جعلی ہے تو بیٹے کیلئے وہ اصلی اور کھری کیسے ہو سکتی ہے اس پر مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کی رہنمائی درکار ہے) اور اب ان ہی جعلی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں یعنی خود ہی ایک جعلی عمل کا حصہ بن کر جعلی ممبران کو منتخب کرا کر ایک جعلی اسمبلی کی ترویج کا باعث بن رہے ہیں یعنی یہ اتنا گورکھ دھندہ ہے کہ عام آدمی جب اس بارے میں سوچتا ہے تو وہ ان کی عیاریوں پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ن لیگ پنجاب اور مرکز میں سے حکومت چھن جانے کے غم سے اب تک نہیں نکلی ۔ابتدا میں ن لیگ نے کوشش کی کہ محب وطن حلقوں کو آنکھیں دکھائی جائیں لیکن جب دیکھا کہ عوا م ان کے ہی خلاف ہو گئے جس کی وجہ سے لاہور کا جلسہ بھی ناکام ہوا تو پھر انہوں نے بیک ڈور چینلز سے ڈیل کی کوششیں شروع کر دیں تا کہ ڈیل کر کے ڈھیل حاصل کی جائے ۔ان ہی کالموں میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان میں استعفوں اور لانگ مارچ کی سیاست کا بڑا رواج رہا ہے یعنی دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن ان پر عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان صاحب نے 126 دن دھرنا دیا تو اس کے نتیجہ میں نوازشریف کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو پی ڈی ایم جس میں تقریبا گیارہ جماعتیں شامل ہیں یعنی ایک جگہ گیارہ قائد اکھٹے ہو گئے ہیں ہر ایک کا قبلہ ہی الگ ہے وہ کیسے ایک مضبوط حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو ہر میدان میں پی ڈی ایم کو چاروں شانے چت کر رہی ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ 26 مارچ کو پی ڈی ایم نے اسلام آباد کیلئے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے ان کے اس اعلان نے محب وطن حلقوں کو پی ڈی ایم کی سیاست کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہیں یہ دشمن کے آلہ کار تو نہیں ، کہیں نہ کہیں دشمن قوتیں ان کو درپردہ مدد تو نہیں فراہم کر رہی کیوں کہ 26 مارچ وہ دن ہے جب بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان سے علیحدگی کا دن مناتی ہے اور یہ بنگلہ دیش کی یوم آزادی کا دن بھی ہے اور جو آج بھی پاکستان کیلئے ایک تکلیف دہ دن ہے جب غیروں کی سازش کی وجہ سے اور اپنوں کی بیووفائی نے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کیا۔ یوں پی ڈی ایم نے 26 مارچ کو اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سیاسی طور پر شیخ مجیب الرحمن کے وارث ہیں ان کا قائداعظم محمد علی جناح کی سیاست اور ان کے طور طریقوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

مزیدخبریں