اسرائیلی وزیر اعظم بنجنمن نیتن یاہو نے تیسری مرتبہ متحدہ عرب امرات کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اگلے ہفتے امارات کا دورہ کرنا تھا لیکن یہ دورہ ایک مرتبہ پھر ملتوی ہو گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اگست میں اسرائیل اور امارات کے درمیان ابراہام ایکارڈ ہوا تھا جس کے محرک سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر تھے۔ جیرڈ کشنر صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد منظر سے ہٹ گئے اور انکے سسر کی امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے اس ایکارڈ کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔اسرائیل کے وزیراعظم نے گذشتہ برس دسمبر کے پہلے ہفتے میں متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنا تھا لیکن یہ دورہ بھی ملتوی کر دیا۔ بعد میں اسرائیل کی طرف سے امارات کی قیادت کو بتایا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم فروری کے دوسرے ہفتے میں یہ دورہ کرینگے لیکن یہ دورہ پھر التوا کا شکار ہو گیا۔ اس دورے کا پروگرام متحدہ عرب امارات نے ترتیب دیا تھا لیکن یہ دورہ پھر ملتوی ہو گیا۔ اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ متحدہ عرب امارات میں کرونا کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید سے ملاقات کرنی تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم نیتن یاہو اس لئے نہیں جا رہے کہ خود اسرائیل نے ملک سے باہر جانے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک بہانہ ہے۔ اگر اسرائیلی وزیراعظم دورہ کرنا چاہتے تو وہ کسی دوست کا نجی طیارہ لے کر بھی اس دورے پر جا سکتے تھے۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونیوالے واقعات اسرائیل اور عربوں کے درمیان سمجھوتے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر جو بائیڈن وائٹ ہائوس میں آ چکے ہیں۔ وہ اگرچہ اسرائیل کے حامی ہیں اور انھوں نے ٹرمپ کے دور کی کچھ پالیسیوں کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے۔ صدر جوبائیڈن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو بھی واپس نہیں لیں گے لیکن جوبائیڈن انتظامیہ نے کچھ ایسے اعلانات کئے ہیں جن سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پریشان نظر آتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے دور میں ہونیوالے اس فیصلے پر نظر ثانی کرینگے جس کے تحت امریکہ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 فائٹر جیٹ طیارے دینے کا پابند تھا۔ اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو بھی جدید فوجی ساز و سامان بیچنے کا معاہدہ کر چکی تھی لیکن اب جوبائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 فائٹر نہیں فراہم کریگی۔ اسی طرح سعودی عرب کو بھی کئی ارب کے فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے سمجھوتے پر بھی نظر ثانی ہو رہی ہے۔ ایک اور حیران کن اعلان جو صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ اب امریکہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اقدامات میں حصہ دار نہیں بنے گا اور یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں کارروائیاں کرنیوالی اتحادی فورس کی بھی اس طرح حمایت نہیں کریگا جس طرح ٹرمپ کے دور میں کی جا رہی تھی۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور چند دوسرے عرب ممالک جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، وہ اب اس شش و پنج میں ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ ابراہم ایکارڈ کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرے گی۔
جوبائیڈن انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایران کیساتھ ہونیوالے ایٹمی سمجھوتے میں بھی دوبارہ شامل ہونے کیلئے تیار ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اسرائیل کیلئے پریشانی کا سبب ہو گا۔ اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام سے سخت پریشانی کا شکار ہے اور وہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی تو وہ اس کے ایٹمی پروگرام کو حملہ کر کے تباہ کردیگا۔ یہ ایسے واقعات ہیںجن کے نتیجے میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جو قربت سابق صدر ٹرمپ اور انکے داماد جیرڈکشنر نے پیدا کی تھی، اسے ایک دھچکا بھی لگے گا۔ بعض تجزیہ کار اور مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے نیتن یاہو کے دورہ متحدہ عرب امارات کے التوا کو امریکہ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق بدلتی ہوئی پالیسی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔انکی رائے یہ ہے کہ اگر امریکہ عرب اسرائیل سمجھوتے کی سرپرستی نہیں کرتا اور اس انداز میں اسے آگے بڑھانے کیلئے سفارت کاری پر زور نہیں دیتا تو اب تک عرب ممالک اور اسرائیل میں تعلقات بہتر بنانے کی جو کوششیں ہو چکی ہیں، انھیں دھچکا لگ سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ دونوں ممالک نے تجارتی سمجھوتوں پر بھی دستخط کئے ہیں۔ دونوں ممالک میں پروازیں بھی شروع ہو چکی ہیں اور تعلیمی شعبہ میں تعاون پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی طرف پیش رفت کی ہے۔ یہ سب سعودی عرب کی ایما پر ہو رہا ہے لیکن اگر بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنا نیا ایجنڈا دیتی ہے تو اسرائیل عرب سمجھوتے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی یہ اہم پیش رفت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اندر اسلامی ممالک میں اور غیر عرب اسلامی ممالک میں فلسطین کا مسئلہ حل کئے بغیر اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے اور اسکے ساتھ تجارت شروع کرنے کے بارے میں گہرے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان نے بھی اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا،اگلے چند ہفتوں میں یہ پتہ چل سکے گا کہ صدر ٹرمپ اور انکے داماد جیرڈ کشنر کا شروع کیا ہوا ’’مڈل ایسٹ پراجیکٹ ‘‘ کیا شکل اختیار کرے گا؟