’’ ماضی ٔ  نواز شریف ،میرے کالم ، ڈاکٹر شہباز گِل !‘‘

معزز قارئین ! 5 فروری کو’’ یوم یکجہتی کشمیر ‘‘ پر ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ کے مظفر آباد میں خطاب پر تذکرہ کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ، ڈاکٹر شہباز گِل نے مفرور میاں نواز شریف اور مودی میں ساڑھیوں کے تحفے کا ذکر کرتے ہُوئے مریم نواز صاحبہ پر تنقید کا شوق تو پورا کِیا ۔ دراصل ساڑھیوں کے بجائے میاں نواز شریف کی والدۂ محترمہ کے لئے شالؔ اور شری مودی جی کی ماتا کے لئے ساڑھی ؔ کا تحفہ تھا۔ یہ واقعہ میں بعد میں بیان کروں گا لیکن، مجھے ڈاکٹر شہباز گِل کی خُوش بیانی کی داد دینا پڑے گی۔ شاید وہ اپنی خُوش بیانی ہی کے باعث وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے ترجمان سے ترقی کر کے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ کے درجے پر پہنچ گئے ہیں ۔ معروف شاعر مہدی پرتاپ گڑھی نے نہ جانے کسے مخاطب کر کے کہا تھا کہ … 
’’ کلی چٹک اٹھی ، ماحول ہو گیا گُل بیزؔ!
جو بات آئی کبھی ، اس کی ، خوش بیاؔنی کی! ‘‘ 
…O…
معزز قارئین ! وضاحت ضروری ہے کہ ’’ گُل بیز‘‘(Gul Baiz) کے معنی ہیں ۔’’گُل ریز / خوشبو دار ‘‘اور ’’گِل‘‘ (Gill) ۔ جاٹ برادری کی ایک ’’گوت’’ (Sub-Caste) ہے ۔ بہر حال ڈاکٹر شہباز گِل نے ، سزا یافتہ ، بیمار اور مفرور سابق وزیراعظم کے ماضی کو، خوب کھنگھالا ہے ؟ اُن کی اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ کی یادوں کو روشن کرن کی کوشش کی ہے۔ شری مودی اور میاں نواز شریف کی دوستی کی ابتداء کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ’’26 مئی 2014ء کو، شری نریندر دامودر داس مودی کو ، بھارتی وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانا تھا ۔ اِس سے پہلے 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف وفاق اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ حاصل کر چکے تھے ۔ 
مودی جی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے پہلے میاں صاحب کو شرکت کا دعوت نامہ بھجوا دِیا تھا لیکن، پاکستان خاص طور پر پنجاب میں اُس کی مخالفت ہو رہی تھی۔ 25 مئی 2014ء کو ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے اُس ’’دعوت نامے ‘‘ کو ’’ عداوت نامہ ‘‘ قرار دِیا تھا اور دوسرے روز جنابِ مجید نظامی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ ہمیں نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے اور  اپنی صفوں میں موجود اُن بھارتی شردھاؔلُوئوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی، جو مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر ہمارے ازلی دشمن بھارت سے دوستی اور تجارت کا راگ الاپ رہے ہیں ! ‘‘۔ 
27 مئی کو ’’ بھارتی شردھاؔلُوئوں کا ’’ راگ بیو پار ! ‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ ہندی زبان کے لفظ ’’شردھالُو‘‘ کا مطلب ہے ’’ عقیدت مند ، مُرید، مطیع یا فرمانبردار ‘‘ ۔ اپنے "Mission" کے مطابق 26 مئی 2014ء کو ’’ معراجِ رسول مقبولؐ  ‘‘ کی شب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ، بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کے ساتھ گزاری ۔ 28 مئی 2014ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’معراج کی رات دِلّی میں ؟ ‘‘ ۔ 
اگلی صبح بھارتی حکومت نے اعلان کِیا کہ "One on One" ملاقات میں شری نریندر مودی نے ، وزیراعظم میاں نواز شریف کو "Man of the Peace" ( مرد ِ امن ) کا خطاب دِیا ہے‘‘۔ یہ بھی خبر تھی کہ ’’ مودی جی نے میاں نواز شریف کی والدۂ محترمہ ( شمیم اختر صا  حبہ ) کے لئے شال ؔکا تحفہ بھجوایا ہے لیکن، 29 مئی کو مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ شری مودی نے ہمارے وزیراعظم کی والدۂ محترمہ کے لئے شالؔ تو بھجوائی ہے لیکن، وہ ’’ کشمیری شال ‘‘ نہیں ہے ۔ کالم کے آخر میں میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے دو شعر یوں تھے …؎
’’ٹی وی کی سکرِین پہ فوٹو کھِچواتے!
اِک دُوجے کے گھر میں رہیں آتے جاتے!
اور کریں مضبْوط تجارت کے رِشتے!
مسٔلہ کشمِیر کو ڈالیں کھْوہ کھاتے!‘‘
…O…
’’ مودی ؔ نواز نِکلا ، محمد ؔ نوا ز بھی ؟ ‘‘
معزز قارئین ! پھر کیا ہُوا؟۔ 27 دسمبر 2015ء کو، جب، رائے وِنڈ کے جاتی عُمرا میں اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ وزیراعظم مودی رونق افروز تھے تو، وزیراعظم میاں نواز شریف نے اُنہیں اپنی والدۂ صاحبہ سے ملوایا ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مَیں نے اپنے 27 دسمبر 2015ء کے کالم میں لکھا کہ ’’ وزیراعظم پاکستان کی والدۂ محترمہ نے ، دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو، خُوش رہو گے ؟‘‘۔ اِس پر مودی جی نے بھی بڑی سعادت مندی سے کہا کہ ماتا جی !۔ ہم اکٹھے ہی ہیں ! ‘‘۔ محترمہ شمیم اختر صاحبہ کی طرف سے مودی جی کی ماتا جی کے لئے بھی ساڑھی کا تحفہ بھجوایا گیا تھا ۔ مودی جی سے ، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اُن کے دونوں بیٹوں کو بھی مودی جی سے ملوایا گیاتو، میرے کالم کے آخر میں میرے دوست ’’شاعرِ سیاست ‘‘ کے تین شعر یوں تھے … 
’’ دُکھ بانٹے کچھ غریبوں کے ، پڑھ لی نماز بھی!
مہر اُلنساء کی ، رسمِ حِنا کا جواز بھی!
شردھا سے پیش کردِیا ، حسن ؔاور حسین ؔکو!
مصروفِ کار اُن کا چچا ، شاہباز ؔبھی!
مَیں برتھ ڈے پہ قائداعظمؒ کی کیا کہوں؟
مودی ؔنواز نکلا، محمد نواز ؔبھی! ‘‘
…O…
معزز قارئین ! اب آپ کی مرضی کہ آپ ڈاکٹر شہباز گِل کو داد دیں یا نہ دیں ؟۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن