فنکار مر جاتا ہے لیکن فن کبھی مرتا نہیں ، لا زوال ہوتا ہے ۔ فنکار فانی ہے لیکن فن لافانی ہو تا ہے اورموسیقی کو تمام فنون لطیفہ پر سبقت ہے،، ایک ایسی کائناتی زبان جو ہر کوئی سمجھتا ہے ، محسوس کرتا ہے اور محظوظ ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی فضا میں 80 سال تک ایک سروں کی دیوی اپنی آواز کا جادو جگانے کے بعد بالآخر دنیا سے رخصت ہوگئی۔موسیقی کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ لتا منگیشکر چل بسیں ۔بلبل ہند مر گئی۔ سروں کی دیوی ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی۔فضا میںبکھرے سر ایک لحظہ کے لیئے غائب ہو گئے، ایک سوگوارانہ خاموشی چھا گئی ہے ، پون صدی کے قصے میں کئی نسلیں جوان ہوئیں ۔ بچپن ، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، اھیڑ عمری، اور بڑھاپا، عمر نا تمام کے تمام حصوں کی جذباتی نمو میں لتا منگیشکر کے سروں نے آبیاری کی۔ ایک nostalgia ہے جو دیدی کی آواز سے منسلک ہے ، ہمارے گزرے وقت کی یادیںاس دیوی کے بکھیرے ہوئے سر وں سے گوندھی ہوئی ہیں۔ ایک لے بلند ہو گی، ایک سر اورایک تان سے پیدا ہونے والا سحر آپ کو جکڑ لے گا۔ یہ وہ جادو تھا جو سروں کی دیوی اپنی آواز سے جگاتی تھی، کیا گاتی تھی:’’نام گم جائے گا، چہرہ یہ بدل جائے گا ، میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے‘‘کہتے ہیں ہر آواز اس فضا میں گم ضرور ہوتی ہے لیکن لا فانی
ہونے کے باعث موجود رہتی ہے ، لتا جی کا شکریہ کے اس فضا میں سروں کی جو آمیزش ہوئی یہ ایک دیوی کا ہی خاصہ ہو سکتی تھی ۔ صداکار تو دنیا میں بہت ہیں لیکن قدرت نے جو چاشنی بلبل کی صدا میں رکھی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔فن کی بقا کے لیئے لتا دیدی کا ڈالا گیا حصہ شاید کسی اور قلاکار کے نصیب میں نہ آ سکے۔ پون صدی کے دورانیہ نے سروں کی دیوی کو نہ صرف امر کر دیا بلکہ حقیقی معنوں میں اسے لیجنڈ بنا دیا۔ سروں کی اس دیوی سے ہر قلاکار موسیقی کا گیان حاصل کرتا اور عقیدت کے چڑھاوے چڑھاتا ہے۔ لیکن کیا کریں :
’’یاد کی وادی میںگونجیںبیتے افسانے ، ہم سفر جو کل تھے اب ٹہرے وہ بیگانے محبت آج پیاسی ہے بڑی گہری اداسی ہے، نیلا آسماں سو گیا‘‘ فن موسیقی کے قدردانوں کے لیئے یہ خوش نصیبی تھی کہ وہ لتا جی کے دورمیں زندہ رہے یا لتا جی انکے دور میں زندہ رہیں اور ان کی یادوںمیں لتا جی کے سروں کی چاشنی ممکن ہوئی۔انکے لمحوں کو یادگار بنانے میں جن سروں کی آمیزش ہوئی وہ لتا منگیشکر کے سر تھے ، آواز تھی، جادو تھا، فن کا اوج کمال تھا، جس کے لیئے شاید ایک جنم نا کافی معلوم ہوتا ہے۔ ’’ہم کو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے ، جی بھر کے دیکھ لے یہ جی ہم کو قریب سے ،پھر آپ کے نصیب میں یہ بات ہو نہ ہو، شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘‘ان آٹھ دہائیوں میں لتا جی نے جو کچھ موسیقی کی دنیا کو دے دیا وہ صدیوں تک امر رہے گا کیونکہ آواز گم تو ہو سکتی ہے لیکن کبھی نہیں مرتی ، اور سروں کی آوازکا خاصہ ہے کہ باز گشت بن کر ہماری سماعتوںپر لطافت کی آمیزش کرتی رہتی ہے : ’’آئے گی آئے گی آئے گی، کسی کو ہماری یاد آئے گی،
میرا من کہتا ہے پیاسے جیون پہ ، چھائے گی چھائے گی، چھائے گی ،کبھی کوئی بدلی چھائے گی دنیا میں کون ہمارا ہے ، امید کا ایک سہارا ہے ،کشتی بھی ہے ٹوٹی ٹوٹی اور اتنی دور کنارہ ہے ،ماجھی نہ سہی کوئی موج کبھی ساتھ ہمیں بھی لے جائے گی ،آئے گی آئے گی آئے گی کسی کو ہماری یاد آئے گی‘‘ اچھی موسیقی cathartic efficacy کی حامل ہوتی ہے ، آپ کی محبت، رومانس، ملاپ، جدائی، رشتے، ناطے، تعلق، انسیت، میل ملاپ، لاڈپیار، انکار، نخرہ و انداز، طلب وخواہش ، بے رخی و بے نیازی، چاہت و اقرار، جذبات و احساسات ،گیت ہو یا سنگیت ، نغمہ ہو یا ترانہ ، حمد و نعت ، بھجن ، قوالی ہو یا منقبت کیا کچھ ہے جو سرسے منسلک نہیں ہوسکتا ۔ سروں کاتاثر خدا داد ہوتا ہے ، جس سے انکار خلاف انسانی فطرت ہے ۔یہ وہ عالمی زباں ہے جس میں صرف لطیف احساسات کو ہی چھیڑا جاتا ہے اور گداز فطرت کی آبیاری کی جاتی ہے۔ فن کی معراج ہی سحر انگیز ہونا ہے اور یہ سحر لتا دیدی نے ایسا جگایا کہ رہتی دنیا تک قدردانوں کو لبھاتا رہے گا ۔ دیدی نے اپنا حصہ بطریق احسن ادا کر دیا ۔ سروں کی دیوی خود خاموش ہو گئی لیکن اپنی آوازکو امر کر گئی: ’’نام گم جائے گا، چہرہ یہ بدل جائے گا ، میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے‘‘۔