لاہور(سپورٹس رپورٹر)پی ایس ایل 7 میں لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنے والے آسٹریلیا کے بین ڈنک اور جیمز فالکنر اپنی ٹیم کو 24 سال بعد پاکستان میں ایکشن میں دیکھنے کیلئے پْرجوش ہیںاور دورہ کو کھیل کیلئے مثبت اقدام قرار دیا ہے، وہ پرعزم ہیں کہ مہمان ٹیم پاکستانی شائقین کے سامنے کھیل کر خوب لطف اندوز ہوگی۔بین ڈنک کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کی نمائندگی کرتے ہوئے اب تک پی ایس ایل میں مجموعی طور پر 30 میچز کھیل چکے ہیں۔ ایڈیشن 2021 میں لاہور قلندرز کے سکواڈ میں شامل ہوکر پہلی مرتبہ پی ایس ایل کا حصہ بننے والے جیمز فالکنر رواں ایڈیشن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ اب تک لیگ کے 20 میچز کھیل چکے ہیں۔34 سالہ بین ڈنک نے کہاہے کہ وہ پاکستان سپرلیگ میں شرکت کی غرض سے لگاتار چوتھے سال پاکستان آئے ہیں، اس عرصے کے دوران وہ یہاں کی ثقافت سے کافی حد تک روشناس ہو چکے ہیں تاہم سب سے خاص بات یہاں کرکٹ سے بے حد محبت کرنے والے مداح ہیں جوکرکٹ میچز دیکھنے بڑی تعداد میں سٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں۔ میں پرامید ہوں کہ مارچ/اپریل میں کھیلی جانے والی پاکستان آسٹریلیا سیریز میں شائقینِ کرکٹ کو معیاری کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ ایک طویل عرصے بعد پاکستان کا دورہ کرنا آسٹریلوی کھلاڑیوں کیلئے بھی شاندار تجربہ ہوگا، ان کی پاکستان کا دورہ کرنے والے ممکنہ کھلاڑیوں سے بات چیت ہوتی ہے، جنہیں وہ یہی بتاتے ہیں کہ یہاں عوام مہمان یا میزبان ٹیم سے قطع نظر کرکٹ سے محظوظ ہونے سٹیڈیم آتی ہے۔بین ڈنک نے کہا کہ آئی سی سی ایوارڈز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی بالادستی اور پھر ٹیسٹ کرکٹ میں فواد عالم، بابراعظم اور محمد رضوان کی کارکردگی پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ کا عملی نمونہ ہے۔پاکستان اور آسٹریلیا ٹیسٹ کرکٹ کی دو بہترین ٹیمیں ہیں، پاکستان کیخلاف سیریز آسٹریلوی کھلاڑیوں کا امتحان ہو گی، یہاں کی پچز بھی آسٹریلیا سے مختلف ہوں گی۔ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم آخری مرتبہ 24 سال قبل پاکستان آئی تھی، وہ بھی اس سال آسٹریلیا انڈر 19 کی نمائندگی کرنے پاکستان آئے ہوئے تھے، اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی۔ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ضروری ہے، وہ آج ساری دنیا سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کیلئے پاکستان آنابھی کسی صورت مختلف نہیں ہے۔آسٹریلوی وائٹ بال کپتان ایرون فنچ پاکستان آنے کے بے صبری سے منتظر ہیں ‘انہوں نے کہا کہ ایک پلیئر ہونے کے ناطے میں وہاں پر کھیلنے کا مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ بطور پلیئر میں وائٹ بال میچز کیلئے پاکستان جانے کا مزید انتظار نہیں کرسکتا، یہ دنیا کا وہ مقام ہے جوطویل عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا، جب پاکستان ایک کرکٹنگ قوم کے طور پر ابھرے تو کھیل بہت ہی بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دنیا بھر میں کرکٹ کو استحکام دینے کیلئے سب کچھ کرنا چاہیے، اگر ہم ایسا نہیں کر سکے تو کھیل کو ہی نقصان پہنچے گا،جہاں تک میں جانتا ہوں سیریز کیلئے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل مضبوط ترین سکواڈ دستیاب ہے۔