کتاب، گفتگو اورتربیت سازی 

سیانے کہتے ہیں کہ کوئی بھی انسان اپنی گفتگو سے کسی کے دل میں اترتا ہے یا پھر اپنی گفتگو سے کسی کے دل سے اترجاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’پہلے تولو،پھر بولو‘‘۔ یعنی گفتگو ہر انسان کے کردار اخلاق اور شخصیت کی آئینہ دارہوتی ہے۔انسان اپنی گفتگوکے پردے میں چھپا رہتا ہے۔ اس کی گفتگو سے پہچان بنتی ہے۔ گفتگو ایک باقاعدہ فن ہے۔کس سے، کب، کہاں اورکیسے بات کی جائے یہ سلیقہ انسان کی شخصیت میں وقاراور نکھار پیدا کرتاہے۔آج مادی ترقی کے دور میں ہر محکمہ  بھاری معاوضے پرایسے افرادبھرتی کرتا ہے جو گفتگو کا فن بخوبی جانتے ہوں۔کسی بھی قوم کی تربیت کے لیئے محض جذبات اور شوق ہی کافی نہیں  ہوتاہے،  بلکہ وہاں بسنے والے لوگوں کی نفسیات کو سمجھنا اور اسکے مطابق اسکو ایک قابل انسان بنانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔میرا ایک عرصے سے یہ ماننا ہے کہ جب تک ہم پرائمری ٹیچر اور پریچر یعنی محلے کے مولوی صاحب کو عزت نہیں دیں گے ہمارا  ایک قوم بننے کا خواب بس خواب ہی رہے گا ۔پاکستان میں اکثریت آبادی مسلمانوں کی ہے اور پیدا ہونے والے ہر بچے کو تین چار سال کی عمر میں والدین دینی تعلیم  اورقران پاک پڑھنے کے لیے محلے کی مسجد میں بیجھ دیتے ہیں ۔اور اسی دوران بچے کو دنیاوی تعلیم کے لیے کسی سکول میں داخل کروادیا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کو جس سانچے میں چاہیں ڈالا جاسکتا ہے ۔اس وقت ہمارے مولوی صاحب اور سکول کے ماسٹر صاحب یا ’’سر‘‘  جیسے چاہیں اس بچے کی ذہن سازی کر سکتے ہیں ۔لیکن عام طور پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ان دو نوں قابل قدر ہستیوں کی اپنی تربیت ادھوری ہوتی ہے۔ہماری مساجد میں مولوی صاحب کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی ہے کہ کوئی ایم اے اسلامیات یا کوئی مفتی وہاں دینی علوم سکھانے کے لیے دستیاب ہو۔ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے دیکھ کے سیکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے مولوی صاحبان اور اساتذہ ان معصوم ذہنوں میں ایک ایسا انتشار بھر دیتے ہیں جو ساری عمر ان کا پیچھا کرتا ہے ۔جب ہمارے اساتذہ اور معلموں میں تربیت کا فقدان ہوگا تو بچوں کی بہتر تربیت کیسے ممکن ہے۔ ہماری قوم کی اخلاقی پستی کا جو آج حال ہے اس کی وجہ ہمارا کتاب سے تعلق کمزور ہونا بھی ہے ۔ کیونکہ جب کوئی انسان کتاب سے دور ہوتا ہے تو وہ اپنی زبان، اپنے رسم ورواج،اپنی تاریخ، اپنی ثقافت، اپنے تشخص اور اپنے اسلاف کی اعلی قدروں سے بھی دور ہوجاتا ہے ۔ایک وقت تھا لوگ کتاب بڑے شوق سے پڑھتے تھے لیکن آج سوشل نیٹ ورک کی وجہ سے ہمارے گھروں میں بک شیلف ناپید ہوتے جارہے ہیں پہلے  جہاں ہر گھر میں کتب سے مزین الماریاں ہوتی تھیں اب وہاں بڑی بڑی ایل سی ڈیز اور سپیکر سجے نظر آتے ہیں ۔ کتاب سے علم کو اپنی ذہنی یاد داشت میں محفوظ نہیں کیا جا رہا جس کا سب سے بڑا نقصان نسل نو کا حافظہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۰ نوجواں نسل  کتاب پڑھ کے ریسرچ کے عمل سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ہر علم کو گوگل پر سرچ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، لوگ کتاب نہیں خریدتے بلکہ احباب سے کتابوں کی پی ڈی ایف فائل طلب کر لیتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کتب بینی سے دوری ہمیں دین سے،اپنی ثقافت سے،اپنے تمدن سے  اوراپنی زبان سے دور لے کر جارہی ہے۔
جن ملکوںنے اپنی ثقافت و زبان کو فخر کے طور پر اپنایا تو آج ان کی پہچان دنیا کے طاقتور ترین ملکوں میں ہورہی ہے ۔جبکہ ہم نے اپنی زبان اوراپنے رسم و رواج کی جگہ اغیار کی ثقافت کو اپنے اوپر مسلط کر کے نوجوانوں کو عجیب کشمکش میں ڈالا ہوا ہے ۔ ایک طرف مغرب اور یورپ آج بھی کتب بینی سے فیضیاب ہو رہے ہیں وہاں آج بھی ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کی کتب لاکھوں کی تعداد میں بک رہی ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے ادباء و دانشور اپنی زندگی بھر کی پونجی جمع کر کے کتاب چھپوا تے ہیں اور پھر گھر گھر،دفتر دفتر جا کر دوستوں کو وہ کتاب پیش کرتے ہیں کہ بھائی صاحب یہ کتاب میں نے بڑی مشکل سے شائع کروائی ہے۔آپ کو مفت بطور تحفہ دے رہا ہوں ، اسے لازمی پڑھیئے گا۔اگر ہم چاہتے ہیں ہمارا تشخص اور پہچان سلامت رہے تو ہمیں اپنے پرائمری ٹیچر اور پریچر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پہ سرمایہ کاری کرنا ہوگا ۔ہم نے ان منصب  پر فرائض سرانجام دینے والوں کو ایسے عزت دینی ہے۔ٹیچر اور پریچر کو اتنا معاوضہ اورعزت دینا ہے کہ ماں باپ فخر سے کہیں کہ ان کا اعلی تعلیم یافتہ بیٹا محلے کی مسجد کا امام ہے اور کوئی  دوسراپی ایچ ڈی بیٹا محلے کے ہی سکول میں پڑھاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن