آبادی میں اضافہ:حقیقی خطرہ

حال ہی میں جاری کی گئی قومی سلامتی پالیسی میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی سلامتی کیلئے ایک خطرہ قرار دیاگیاہے جوکہ ایک حقیقت ہے، مگر اس پر قابو پانے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیارکیاجائے اس کا کہیں ذکرنہیں جو کہ ایک قابل تشویش بات ہے۔ پاکستان کا شمار اس وقت دنیا کے پانچ بڑے آبادی والے ممالک میں ہوتاہے جبکہ ہمارا آبادی میں اضافے کا سالانہ تناسب جوکہ2.4%ہے دنیا میں بلندترین میں سے ایک ہے۔ ہر سال تقریباً50لاکھ بچوں کا اضافہ ایک ایسا خطرہ ہے جس پر اگر فوری قابونہ پایاگیا تویہ واقعی ہماری قومی سلامتی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ  ثابت ہوسکتاہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی معاشرے کیلئے عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ثابت ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے معاشرے کے مختلف شعبوں بالخصوص صحت، تعلیم اور انسانی ترقی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی ذرائع کو تیزی سے کم کرتی ہے بالخصوص غذائی اجناس اور بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا ہی بہت مشکل ہوجاتاہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حجم کسی ملک کیلئے ایک اثاثہ بھی ہوسکتاہے مگرجہاں پہلے ہی غربت، جہالت اورپسماندگی ہووہاں یہ کسی طور پر بھی اثاثہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ صحت مند،تعلیم یافتہ اور ہنرمندافرادی قوت ہی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔اگرہماری آبادی میں اضافے کا سالانہ تناسب یہی رہا تو2030ء تک پاکستان کی آبادی300ملین کو بھی عبورکرجائے گی جوکہ کسی صورت بھی ایک خوش آئند بات نہیں۔ اتنی بڑی آبادی قومی ذرائع پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوتی ہے جبکہ اتنی بڑی آبادی کو صحیح طور پر سپورٹ کرنے کیلئے ملکی معیشت کی ترقی کی شرح کم ازکم7%سالانہ ہونی چاہیے جبکہ ہماری معیشت اس وقت4فیصد سالانہ کے لحاظ سے ترقی کررہی ہے جو کہ بلاشبہ ایک تشویش کی بات ہے۔ آبادی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے پاکستان کیلئے ترقی کے اہداف پورا کرنا بہت مشکل کام ہے۔1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقت ملک کے دونوں حصوں میں آبادی میں نمایاں فرق تھا۔ آج کا پاکستان جو اس وقت مغربی پاکستان تھا اُس کی آبادی اُس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے کم تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بھی زیادہ تھی مگر آج صورتحال یکسرمختلف ہے ۔ پچھلے پچاس سالوں میں بنگلہ دیش نے اپنی آبادی میں شرح کو بہت حد تک کنٹرول کیا جوکہ آج تقریباً ایک فیصد کے قریب ہے اور بنگلہ دیش کی حیرت انگیز معاشی ترقی میں ایک بڑی وجہ ہے۔1971ء میںمشرقی پاکستان کی آبادی65ملین تھی جوکہ اب164.7ملین ہے جبکہ  مغربی پاکستان کی آبادی1971ء میں58ملین تھی جبکہ آج220ملین ہے۔ ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہم آبادی کی رفتارکو روکنے میں کس حد تک ناکام ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش کتنا کامیاب ہواہے۔ آج ملک میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان بھی اسی وجہ سے ہے۔ پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 60فیصد ہے جوکہ بہت سے ترقی پذیر بلکہ پسماندہ ممالک سے بھی کم ہے۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتاہے جہاں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد سکول ہی نہیں جاتی۔ ہم اپنیGDPکا صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ انسانی ترقی میں پاکستان کا شمار بہت نچلی سطح پر ہوتاہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں ایک اور المیہ بھی پروان چڑھ رہاہے اور وہ آبادی کا تیزی سے شہروں کی طرف منتقل ہوناہے۔ حکومتوں کی ناقص پالیسیز کی وجہ سے نہ نئی آبادیاں کسی طور طریقے کے مطابق عمل میں آرہی ہیں۔ جہاں سیوریج اور فراہمیِ آب جیسے بنیادی مسائل درپیش ہیں اور نہ ہی آبادی کی شہروںکومنتقلی کو روکاجارہاہے۔ زرخیز زرعی اراضی پر بغیرکسی روک ٹوک اور منصوبہ سازی کے ہائوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں جوکہ مستقبل میں ایک مشکل صورتحال کی شکل اختیار کرسکتاہے۔چونکہ ملکی معیشت تنزلی کا شکارہے اس لیے اس معیشت کے ساتھ اتنی بڑی آبادی کو سہولیات فراہم کرناحکومت کیلئے ایک ناممکن سی بات ہے، اسی طرح صحت کی سہولیات کا بھی فقدان ہے اور موجودہ سرکاری ہسپتالوںمیں لوگ مارے مارے پھرتے نظرآتے ہیں۔ خوشحال معاشرے کبھی اس طرح کے مسائل کا شکارنہیں ہوتے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ پہلے سے موجود طبقاتی تقسیم میں بھی اضافہ ہورہاہے جس سے محرومیاں اورمایوسیاں بھی بڑھ رہی ہیں اوریہی وجہ خطرات ہیں جوکہ قومی سلامتی کو درپیش ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کا تدارک کرنا بہت ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن