خالد بہزاد ہاشمی
خواجہ خواجگان‘ خواجہ بزرگ ہنداولی‘ عطائے رسول‘ سلطان الہند‘ خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے 810 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات اجمیر شریف میں بصد تزک و احتشام روایتی طریقہ سے جاری ہیں‘ لیکن کرونا کی عالمی وباء کی شدت کے پیش نظر ماسک اور ایس او پیز پر عملدرآمد کی پابندی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ وباء کے دنوں میں بھی دن بھر لاکھ سے زائد زائرین نذرانہ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ تقریبات کا آغاز بلند دروازے پر جھنڈا لہرانے‘ بڑے پیر صاحب کی پہاڑی پر توپیں داغنے‘ نظام گیٹ پر شادیانے بجانے سے ہوتا ہے۔ پہلی محفل سماع‘ سجادہ نشین دیوان سید زین العابدین کی زیرصدارت منعقد ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز سلسلہ چشتیہ کے سرتاج ہیں۔ انہیں ان کے پیش رو مرشد حضرت سید عثمان ہارونی نے خلافت فرمائی تھی جبکہ حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مہرولی (دہلی) کوخلافت عطا فرمائی اور پھر حضرت خواجہ غریب نواز اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم بابا فریدالدین گنج شکر کو فیض بخشا اور خلافت عطا فرمائی اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے دلی کے روحانی تاجدار و امن کار حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کو خلافت مرحمت فرمائی۔ اس گناہ گار کا تعلق بھی حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے بڑے خلیفہ حضرت جمال الدین ہانسوی (حصار/ ہریانہ) کے خانوادہ سے ہے اور اولیاء کرام سے بے پایاں عقیدت کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ زندگی میں جو عزت و تکریم اور مقام و مرتبہ ملا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کرم‘ پیارے نبی ؐ کے فیضان اور انہی در اور چوکھٹ کی نسبت کی عطا ہے۔ آپ کے آستانہ مبارک کو ہندوستان کی سب سے بڑی اور متبرک درگاہ کا درجہ حاصل ہے اور آپ کی شان اقدس میں شاہ و گدا‘ مسلم‘ غیر مسلم سب رطب النسان رہے ہیں۔ تمام سلاطین‘ بادشاہ‘ شہنشاہ‘ شہزادے‘ شہزادیاں‘ راجے‘ مہاراجے‘ نواب آپ کی در کی خاک کو سرمہ اکسیر سمجھتے رہے۔ یہاں شہنشاہ شاہ جہاں (خالق تاج محل) کی صاحبزادی شہزادی جہاں آراء المعروف بڑی بیگم کی عقیدت کی مثال دوں گا جس نے آپ کی شان میں مونس الارواح لکھی۔ جو آگرہ سے ہر منزل پ دو رکعت نماز نفل ادا‘ دوران سفر اپنے پائوں اجمیر کی جانب نہ کرتی۔ بڑے دروازے پر چہرے پر آستانہ کی خاک خاک ملتی۔ گنبد مبارک تک پلکوں سے زمین کو چومتے ہوئے جاتی ہے۔ روضہ ہ کے گرد سات بار قربان ہو ہوکر کر اپنی پلکو ںسے جاروب کشی کرتی ہے۔ وہ خود کہتی ہیں کہ میں انتہائے شوق میں باولی ہی ہو گئی تھی۔ اس نے یہاں بیگمی دلان تعمیر کرایا۔ شہزادی جہاں آراء کو حضرت محبوب الٰٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء سے بھی بے پایاں عقیدت تھی اور اس نے بستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیائ‘ نئی دہلی میں قطہ اراضی خرید کر وہاں آپ کے قدموں میںد فن ہونا پسند کیا اور اپنا کروڑوں روپے کا ترکہ درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کیلئے دینے کی وصیت کی جس کی اس کے حکمران بھائی اورنگزیب عالمگیر نے پاسداری نہیں کی اور ان کا بڑا حصہ بیت المال میں جمع کرایا تھا۔
درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز اجمیر شریف کے سجادہ نشین دیوان سید زین العابدین کے جانشین صاحبزادہ سید نصیرالدین چشتی نے نوائے وقت کو ٹیلیفون پر بتایا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے 810 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات یکم رجب المرجب سے درگاہ شریف پر شروع ہو چکی ہیں جو چھ رجب تک جاری رہیں گی۔ اس دوران 6 دن رات کو مزار مبارک کو غسل دیا جائے گا۔ درگاہ شریف پر رات کا کرفیو جاری ہے۔ صاحبزادہ نصیرالدین چشتی نے بتایا کہ پانچ رجب کو خانقاہ شریف میں بسنت کی خصوصی تقریب بھی منعقد ہوگیجو امسال اسی تاریخ کو آ رہی ہے اور صبح ساڑھے نو بجے غیر مسلم اور مسلم زائرین حضرت خواجہ غریب نواز کے حضور بسنت کے خصوصی پھول پیش کریں گے اور اس موقع پر حضرت امیر خسرو کا کلام پڑھا جائے گا۔ یہ تقریب تمام سجادگاہ کی موجودگی میں خانقاہ شریف کی رہائش گاہ پر سجادہ نشین دیوان سید زین العابدین اور ان کی (صاحبزگادہ نصیر الدین چشتی) کی موجودگی میں جاری رہیں گی۔ اس موقع پر دیوان اپنا خصوصی پیغام بھی دیتے ہیں۔ چھ رجب کو قل شریف کی رسم ادا ہوگی اور دیوان صاحب کو خلعت عطا ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے وزیر اقلیتی امو مختار عباس چجادر پیش کریں گے۔ صاحبزادہ نصیر الدین چشتی نے بتایا کہ پاکستانی زائرین کی آمد کی تیاریاں پہلے سے شروع کر دی جاتی ہیں۔ حکومت ان کو سکیورٹی‘ رہائش‘ کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے۔ زائرین کی آمد چاند رات دو یا تین تاریخ بھی ہوتی ہے جو ویزا ملنے پر مشروط ہے۔
درگاہ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء نئی دہلی کے سجادہ نشین دیوان سید طاہر نظامی نے نوائے وقت کو فون پر بتایا کہ وہ گزشتہ روز ہی اجمیر شریف سے واپس لوٹے ہیں اور پانچ رجب کو درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی طرف سے خصوصی چادر لیکر دوبارہ حضرت خواجہ غریب نواز کے حضور پیش ہونگے جبکہ پانچ رجب کو ہی نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اجمیر شریف میں خصوصی چادرچڑھائی جائے گی۔ دیوان سید طاہر نظامی نے چار سو پاکستانی زائرین کو عین وقت پر ویزا نہ ملنے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ زائرین اجمیر شریف جانے کیلئے سامان کے ساتھ لاہو پہنچ چکے تھے اور بیشتر کو ویزا نہ لگنے کا پتہ نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب ویزا لگانا نہیں تھا تو کئی ماہ تک پاسپورٹ کیوں جمع رکھے جاتے ہیں۔ پہلے ہی بتا دیا جائے کہ ویزا جاری نہیں کریں گے۔ زائرین یہ نہ سمجھیں کہ سرحدیں بند ہیں۔ حاضری نہیں ہو سکتی۔ حضرت خواجہ غریب نواز کے چاہنے والوں کے دل کی سرحدیں تو کھلی ہیں۔ ان کی حاضری ان کی بارگاہ اقدس میں قبول و منظور ہوئی۔ دیوان سید طاہر نظامی نے بتایا کہ ہندوستان کی تمام بڑی درگاہوں‘ مندروں‘ گوردواروں اور چرچز میں رات کا کرفیو جاری ہے۔ درگاہوں پر رات ساڑھے دس سے صبح پانچ بجے تک کرفیو رہتا ہے۔ پانچ بجے دربار شریف کھلتے اور نماز کے بعد زائرین مزار شریف پر حاضری دینے آجاتے ہیں اور یہ سلسلہ دن بھر جاری رہتا ہے۔ اجمیر شریف میں زائرین کرونا ایس او پیز کی پابندی کر رہے ہیں۔ درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز پر بغیر ماسک کے کوئی نظر نہیں آیا۔ یہاں نئی دہلی میں حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء پر بھی ماسک اور سماجی فاصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔
غیر مسلم بھی آپ کے عرس کے شدت سے منتظر ہوتے ہیں: سید نعیم نظامی
درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نئی دہلی سے سید نعیم نظامی نے نوائے وقت کو بتایا کہ وہ پانچ رجب کو دیگر ساتھیوںسید عمران نظامی‘ سید عمر نظامی‘ سید عزیز نظامی‘ سید خسرو نظامی کے ہمراہ اجمیر شریف حاضری اور سلسلہ چشتیہ کے سرتاج کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کریں گے۔ اس عرس مبارک کا تمام مسلم‘ غیر مسلموں کو شدت سے انتظار رہتا ہے اور اس میں شرکت باعث برکت و ثواب سمجھتے ہیں۔ سید نعیم نظامی نے کہا کہ حضرت خواجہ غریب نواز کا فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔
درگاہ حضرت خواجہ خطاب الدین بختیار کاکی پر قوالی‘ جلوس اور چادر کی رسم
حضرت خواجہ غریب نواز کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مہر ولی (دہلی) کے سجادگان سید مہدی حسین قطبی نیازی اور سید سیف الرحمن قطبی نیازی نے نوائے وقت کو بتایا کہ پانچ رجب المرجب کو بعد نماز عشاء درگاہ شریف پر قوالی اور جلوس کے سالانہ چادر شریف کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ بعد ازاں شجرہ خوانی‘ محفل خواجہ قل شریف اور قوالی کے بعد تبرک اور لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ چھ رجب کو بعد نماز فجر قرآن خوانی‘ نو ساڑے نو بجے رات گیارہ بج تک قوالی‘گیارہ بجے قل شریف اور ختم صلوٰۃ و سلام کے بعد تبرک اور لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ تمام تقریبات ہندو مسلم‘ سکھ جوق در جوک شرکت کرتے ہیں۔
چھٹی شریف کی مرکزی تقریب درگاہ نصرت بابا فرید الدین گنج شکر پر جاری: دیوان احمد مسعود چشتی
حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پاکپتن شریف کے ولی عہد سجادہ نشین دیوان احمد مسعود چشتی نے نوائے وقت کو حضرت خواجہ غریب نواز کے سالانہ عرس کی تقریبات کے حوالے سے بتایا کہ یکم رجب المرجب سے سات رجب تک روزانہ ختم خواجہ خواجگان درگاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پر صبح گیارہ بجے اور دوبارہ بعد نماز عشاء منعقد ہوتا ہے، اس دوران محفل سماع، درود سلام کی محفل اور لنگر بھی رات دن جاری رہتا ہے جبکہ چھٹی شریف کی مرکزی تقریب بعد نماز عشاء چادر خوانی ، ختم شریف اور پھولوں کے نذرانوں کے ساتھ جاری رہتی ہے جس میں ایک اور بیرون ملک سے تمام مشائخ حضرات جو اجمیر شریف جانے کی سعادت حاصل نہیں کر پاتے وہ شریک ہوتے ہیں، اس میں کوٹ مومن شریف ، تونسہ شریف ، گولڑہ شریف ، سیال شریف اور دیگر آستانوں کے سجادگان و مشائخ و عظام بھی شامل ہوتے ہیں۔
بچپن میں عید گاہ جاتے نابینا بچے کو اپنے کپڑے
پہنائے آپ کے والد محترم حضرت خواجہ غیاث الدین چشتی اور والدہ محترمہ بی بی ماہ نور المعروف بی بی ام الورع نے آپ کی تربیت اس عمدگی سے کی کہ بچپن میں ہی آپ کی طبیعت میں انسانیت اور رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، بہت چھوٹے تھے کہ عید کے روز نئے لباس میں تیار ہو کر عیدگاہ جا رہے تھے راستے میں ایک نابینا بچے کو دیکھا جس کے جسم پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے تھے، یہ دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے اپنے زیب تن کپڑوں میں سے کچھ اتار کر اس نابینا بچے کو پہنائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔
گلی کے ہم عمر بچوں کو گھر لا کر کھانا کھلاتے
آپ بمشکل تین سال کے تھے تو اکثر و بیشتر باہر گلی سے اپنے ہم عمر بچوں کو بلا کر گھر لے آتے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا کر ازحد خوش ہوتے۔ جب کوئی خاتون شیرخوار بچے کے ساتھ گھر آتی تو بچہ روتا تو آپ اپنی والدہ کو اشارہ کرتے جو فوراً سمجھ جاتیں اور اسے اپنا دودھ پلاتیں اور ایسے میں آپ کے معصوم چہرے پر خوشی رقصاں ہوتی۔
پیر و مرشد حضرت عثمان ہارونی سے خرقہ خلافت عطا ہوا
حضرت سلطان الہند، خواجہ غریب نواز، خواجہ خواجگان کو روحانیت میں یہ اعلیٰ و ارفع مقام اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی نذرِ کیمیا ان کی خدمت اور راہ سلوک پر ان کے بتلائے راستے پر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوا۔ آپ کو بیس سال تک اپنے مرشد کی خدمت کا شرف حاصل ہوا، دیگر ممالک کے سفر اورسیاحت کے دوران اپنے مرشد کا سامان اور پانی کی چھاگل ہمیشہ آپ کے سر پرنور پر رہتی۔ آپ کو مرشد نے باون سال کی عمر میں خرقہ خلافت عطا اور سجادہ نشین مقرر فرمایا اور آپ کو اپنا عصا، مصلی ، خرقہ ، لکڑی کی نعلین (کھڑاویں) عطا کیں اور فرمایا کہ پیارے نبیؐ کے یہ تبرکات پیران طریقت کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ جسے مرد کامل پائو اسے ہماری یہ یادگار دے دینا، سینے سے لگا کر ہدایت فرمائی اے معین الدین! خلق سے دور رہنا کسی سے طمع و خواہش نہ رکھنا۔
خانہ کعبہ میں غیب سے ندا
ہم نے معین الدین کو قبول کیا
آپ اپنے مرشد حضرت عثمان ہارونی کی سربراہی میں حرمین شریفین پہنچے، جب خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کیا تو آپ کے مرشد نے آپ کا دست حق پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے خانہ کعبہ کے حطیم (پرنالہ) کے نیچے آپ کے حق میں بارگاہ ایزدی میں دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے منظور و قبول فرمائی اور غیب سے ندا آئی کہ ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔
روضہ اطہرؐ سے جواب!
وعلیکم السلام یا قطب المشائخ بروبحر
جب آپ مدینہ منورہ میں مرشد کے ہمراہ روضہ اطہرؐ پر پہنچے تو آپ کے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ سے فرمایا کہ آپ پیارے نبیؐ کے حضور سلام عرض کریں، آپ نے احترام و عقیدت سے اسلام علیکم یارسول اللہؐ عرض کیا تو روضہ اطہرؐ سے جواب آیا! ’’وعلیکم السلام یا قطب المشائخ بروبحر‘‘ آپ کے مرشد نے یہ جواب سننے پر فرمایا کہ تیرا مقصد حل ہوا اور درجہ کمال کو پہنچ گیا۔
(انیس الارواح)
بارگاہ نبویؐ سے ولایت ہند عطا ہوئی
اجمیر جانے کا حکم
اور بہشت کا انار عطا ہوا
ایک مرتبہ جب فریضہ حج کے لیے آپ حجاز مقدس پہنچے تو آپ کے خلیفہ اور حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ مکہ شریف سے آپ مدینہ منورہ پہنچے تو ایک طویل عرصہ تک وہاں مسجد نبویؐ میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہے اور اسی دوران آپ کو آقائے دوجہاںؐ کی بارگاہ سے یہ بشارت ملی کہ اے معین! تو میرے دین کا معین ہے، تجھے ولایت ہند عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلا ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت و کفر دور ہو گا اور اسلام رونق پذیر ہو گا۔ یہ سن کر آپ کی خوش کا ٹھکانہ نہ رہا لیکن ساتھ ہی حیران بھی تھے کہ آخر یہ اجمیر کون سا مقام ہے اور کس ملک میں ہے؟ اسی دوران خواب میں آپ کو پیارے نبیؐ کی زیارت ہوئی اور انہوں نے آپ کو اجمیر شریف کا محل وقوع دکھایا اوربہشت کا ایک انار بھی عطا فرمایا۔
درگاہ حضرت علی ہجویری پر چلہ کشی
جب آپ لاہور تشریف لائے تو شہر کے محافظ مخدوم حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش روضہ مبارک پر حاضری دی اور چلہ کشی کی اور ان کی درگاہ عالیہ سے فیوض و برکات کی روحانی نعمتیں اور برکات حاصل کیںاور حضرت خواجہ نے آپ کی درگاہ مبارک سے رخصت ہوتے وہ شعر پڑھا جو آج زبان زدعام ہے:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
نوے لاکھ کفار کا قبول اسلام
لاہور سے اجمیر شریف کا سفر دو ماہ میں پیدل طے کیا، رستے میں سینکڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیااور جب اجمیر شریف پہنچے تو جس پر نظر پڑتی وہ مسلمان ہو جاتا، آپ کے دست حق پر نوے لاکھ کفار نے اسلام قبول کیا جس کی تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پرتھوی راج کی ماں کی پریشانی
آپ کی اجمیر شریف آمد سے قبل پرتھوی راج رائے پتھورا کی ماں جو کہ علم نجوم اور جادو نگری میں بہت طاق تھی اس نے نجومیوں کی مدد سے بیٹے کو پیش گوئی کی تھی کہ اس حلیے اور علامات کا ایک درویش ہندوستان آئے گا اور تیری حکومت کو ختم کر کے اپنے دین کو فروغ دے گا، تم اس کی تکریم و تواضع کرنا اور اس سے خوش خلقی اور منت سے پیش آنا وگرنہ تم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے، رائے پتھورا نے ماں کی پیش گوئی پر عمل کرنے کی بجائے اپنے تمام علاقوں کے حاکمین کو اس درویش کا حلیہ لکھ بھیجا تھا اور آپ کی دہلی آمد کے بعد ہی پرتھوی راج رائے پتھورا کو اس کے مخبروں نے آپ کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ دہلی کے بعد قصبہ سمانا ضلع پٹیالہ میں قیام کے دوران رائے پتھورا کے آدمیوں نے آپ کو چاپلوسی سے وہاں قیام کے بندوبست کی پیش کی۔ حضرت خواجہ غریب نوازنے مراقبہ کیا تو پیارے نبیؐ نے ان کی بدنیتی سے آگاہ کیا اور وہاں قیام سے منع فرمایا جس کے بعد آپ اجمیر روانہ ہوئے اور 10 محرم الحرام 561ھ کو چالیس درویشوں کے ہمراہ اجمیر پہنچے۔
تمہارے اونٹ بیٹھے رہیں گے
اجمیر شریف آمد پر آپ نے ساتھیوں کے ہمراہ سایہ دار درخت کے نیچے قیام فرمایا، ساربانوں نے کہا کہ یہ جگہ ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کے لیے ہے آپ نے فرمایا اونٹوں کو دوسری جگہ بٹھا دو، ساربان نہ مانے، آپ نے فرمایا ہم تو اٹھتے ہیں لیکن تمہارے اونٹ بیٹھے رہیں گے، بعدازاں ساربانوںنے اونٹوں کو آرام کرنے کے بعد اٹھانا چاہا تو انہوں نے اٹھنے سے انکار کر دیااور وہ دو روز تک لاکھ جتن کے باوجود نہ اٹھے۔ ساربان لاچار ہو کر آپ کے پاس پہنچے اور معافی کے خواستگار ہوئے آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ جائیں گے ساربان واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اونٹ کھڑے تھے۔
آپ کی نعلین ہوا میں اڑتے اجے
پال جوگی کے سر پر برسنے لگیں
اجمیر شریف میں اجے پال جوگی جو سفلی علوم کا بہت بڑا ساحر تھا آپ کو متاثر کرنے کے لیے ہرن کی کھال پر بیٹھ کر ہوا میں اڑنے کا مظاہرہ کرتا رہا۔ حضرت نے اپنی نعلین مبارک کو حکم دیاکہ اجے پال کو نیچے اتار لائو، چنانچہ نعلین ہوا میں بلند ہوئیں اور اسکے سر پر برستی ہوئی اس تکبر و نخوت کے پتلے کی تواضع کرتی ہوئیں اسے زمین پر اتار لائیں۔ اجے پال جوگی خاک پر گرا اور پھر آپ کے قدموں میں گر کر معافی کا خوشتگار اورمشرف بہ اسلام ہوا، آپ نے اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا۔ اسی اجے پال نے انا ساگر سے وضو کے لیے پانی نہیں لینے دیا تھا جس کے بعد سلطان الہند کی کرامت سے جھیل کاسارا پانی ایک پیالے میں آ گیا تھا، اور شہر کے تمام تالاب، کنوئیں ، حوض خشک ہونے لگے جبکہ چار پایوں اور خواتین کادودھ بھی خشک ہونا شروع ہو گیا تھا۔
سادھورام دیو کا قدموں
میں گر کر اسلام قبول کرنا
اجمیر شریف میں راجہ کا مندر انا ساگر اور بلبلہ تالاب کے درمیان تھا، جس کا منتظم سادھو رام دیو تھا، مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھتے اور وضو کرتے دیکھ کر تنگ نظر ہندو سیخ پا ہوئے اور کچھ نے مل کر آپ پر حملہ کر دیا آپ نے زمین سے مٹھی میں ریت اٹھاکر آیت الکرسی دم کر کے شرپسندوں کی جانب پھینکی ریت کے ذرات جس کے جسم پر لگے اس کا جسم فوراً سوکھ کر بے کار ہو گیا، سادھو رام دیو بھی اپنے جادوگروں کے ہمراہ آپ کے نزدیک پہنچاتو آپ کی بزرگی کے جلال کی تاب نہ لا سکا اور نہایت عاجزی اور لاچاری سے آپ کے قدموں پر گر کر معافی کا خواستگار ہوا اور آپ کے دست حق پر مسلمان ہوا اس کا اسلامی نام شادی دیور کھا گیا اور آپ نے اسے تبلیغ کے لیے دیگر علاقوں میں بھیجا۔ شہزادی جہاں آراء کے مطابق وہ ایک جن تھا جس کی اجمیر کا راجہ اور رعایا اسکی پرستش کرتے تھے۔ ان کے خیال میں دنیا کی ساری دولت رام دیو کے پاس تھی۔ اس کے اسلام قبول کرنے پر دولت مند ہندوئوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔
پرتھوی راج کو جواب
ہم تو جاتے ہیں
تمہیں نکالنے والا آنے والا ہے
اجمیر کے حاکم پرتھوی راج نے قاصد کے ذریعے آپ کو اور ساتھیوںکو اناساگر جھیل سے مچھلیاں پکڑ کرکھانے سے منع کی، بعدازاں پیغام بھیجا کل تک اجمیر چھوڑ کر چلیں جائیں، پیغام سن کر آپ نے فرمایا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر تمہیں نکالنے والا آنے والا ہے۔
تھانسیر کے میدان میں شہاب الدین غوری کا پرتھوی راج کو شکست دینا
سلطان شہاب الدین غوری ترائین کی شکست کھانے کے بعد غزنی چلا گیا وہ شکست کے بعد بستر پر نہیں سویا اور ہمیشہ شکست کا بدلہ لینے کا سوچتا، ایک روز خواب میں آپ کو ایک نورانی چہرہ بزرگ کی زیارت ہوئی جنہوںنے اسے یہ بشارت اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی حکومت تجھے بخش دی وہ 1193ء میں ایک لاکھ سات ہزار کی فوج کے ساتھ تھانسیر کے میدان میں دریائے سرسوتی کے پار میدان جنگ میں پہنچ گیا۔ پرتھوی راج رائے پتھورا تین لاکھ سوار فوجیوں، تین ہزار جنگی ہاتھیوں اور سولہ ہزار ساز و سامان کی گاڑیوں کے ساتھ مقابل آیا۔ ڈیڑھ سو راجوں مہاراجوں کی افواج اس کے ہمراہ تھی۔ شہاب الدین غوری کے حوصلے بلند تھے اور اسے خواب میں خواجہ پیر کی مدد کی بشارت بھی یاد تھی۔ شہاب الدین کے ماہر تیر اندازوں نے تین ہزار جنگی ہاتھیوں کی سونڈوں کو نشانے پر لیا جنہوںنے اپنی ہی فوج کو پلٹتے ہوئے روند ڈالا، پرتھوی راج، اس کی فوج اور راجوں مہاراجوں تلسی کے پتے کھاکر کٹ مرنے کی سوگند سب تھانسیر کے میدان میں کھیت رہیں۔ پرتھوی راج کے قتل اور گرفتار ہو کر غزنی پہنچنے کی روایات ہیں۔
شہاب الدین غوری حضرت
خواجہ غریب نوازکے قدموں میں
اجمیرکی فتح کے بعد شام ڈھلے شہاب الدین غوری شہرمیں داخل ہوا تو اذان کی آواز سن کر تعجب ہوا، وہ نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں پہنچاتو تکبیر کے ساتھ نماز کھڑی ہو رہی تھی، وہ بھی صف میں کھڑا ہو گیا، سلام پھیرا تو امامت کرانے والے بزرگ پر نظر پڑی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے سامنے خواب میں فتح کی بشارت دینے والی برگزیدہ ہستی تشریف فرما تھی ، وہ وفور شوق اور ادب اور پرنم آنکھوں کیساتھ آپ کے قدموں میں گر کر دعائوں کا طالب ہوا۔ آپ نے اسے سینے سے لگایا اور دعائوں سے نوازا۔
خدام مصلّے کے کونے سے لنگرکے لیے رقم اٹھا لیتے
آپ کا لنگر خانہ اجمیر کے مساکین اور غرباء کے لیے ہمیشہ جاری و ساری رہتا اور آپ کی حیات مبارک میں بھی وہاں اژدھام لگا رہتا۔ لنگر خانے کے لیے کسی سے سوال زبان پر نہ لاتے۔ جب خدام کو لنگر کے لیے رقم درکار ہوتی وہ آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ مصلّے کا کونہ اٹھاکر فرماتے جس قدر رقم درکار ہے اٹھا لو سو خدام اتنی رقم اٹھا لیتے اور یہ سلسلہ برسہا برس جاری رہا۔
پاپوش پاک سے آگ سرد ہو گئی
ایک شب آپ جنگل سے گزر رہے تھے ، آپ نے دیکھا سات آدمیوں نے الائو روشن کررکھا ہے اور اسکی پوجاکر رہے ہیں۔ ان آگ کے پجاریوں کی دھاک علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ وہ چھ چھ ماہ تک کچھ کھائے پیے بغیر رہتے اورلوگوںکو ان کا حال بتاتے۔ آپ نے ان سے آگ کی پوچا کے بارے میں دریافت فرمایا تو بولے کہ روزِ قیامت کے ڈر سے اس آگ کی پوجاکرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آگ اللہ تعالیٰ کی تابع ہے اگر اللہ کی عبادت کرو گے تو کوئی بھی آگ تمہیں نہ جلائے گی۔ پجاریوں نے آپ کی بات پر یقین نہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آگ مجھے تو کیا میری پاپوش کو بھی گزند نہیں پہنچا سکتی۔ یہ کہہ کر آپ نے پائوں سے نعلیں اتار کر الائو میں پھینکی جس سے آگ بجھ گئی اور جوتی ویسے ہی سلامت رہی۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ ساتوں آتش پرست مسلمان ہو گئے۔
نوعمر ترک غلام کو بادشاہت کی پیش گوئی پوری ہوئی
دلّی میں آپ درویشوں کی مجلس میں تشریف فرما تھے اور حضرت شیخ شہاب الدین، حضرت شیخ احد الدین کرمانی بھی وہاں موجود تھے کہ اسی اثنا میں ایک نو عمر سرخ و سپید ترک غلام ہاتھ میںتیر کمان لیے وہاں سے گزرا، اسے دیکھتے ہی آپ نے برجستہ فرمایا کہ یہ لڑکا تخت دہلی پر متمکن ہونے سے قبل فوت نہیں ہو گا آپ کی ی روحانی پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور یہ نوعمر ترک غلام رضیہ سلطان کا والد سلطان شمس الدین التمش تھا جو تخت دہلی پر متمکن ہوا، وہ حضرت کا مرید اور ازحد عقیدت مند تھا اور اس کے لیے آپ کا ادنیٰ فرمان بھی حکم کا درجہ رکھتا۔
حضرت عثمان ہارونی کے مرید سے ان کے سبب عذاب الٰہی ہٹا لیا گیا
’’سیر الاولیا‘‘ میں مرقوم ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ میرا ایک ہمسایہ جو میرے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا مرید تھا وہ فوت ہواتو میں اس کے جنازے پر گیا، سپردخاک کرنے کے بعد لوگ چلے گئے میں نے مراقبہ کیا تو دیکھا کہ عذاب کے فرشتے پہنچ چکے ہیں لیکن اسی دوران مرشد حضرت عثمان ہارونی درمیان میں آگئے اور فرمایا ہرگز عذاب نہ کرو یہ میرا مرید ہے‘ فرشتوں کا فرمانا ہوا کہ اسے کہوکہ یہ شخص آپ کے خلاف تھا آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے خلاف تھا لیکن پھر بھی اس نے میرا دامن پکڑا تھا‘ بعدازاں فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس پر عذاب نہ کرو کیونکہ یہ خواجہ عثمان کا مرید ہے میں نے اس شخص کو ان کی بدولت بخش دیا۔
روضہ مبارک سے تلاوت کی اصلاح
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ عرصہ تک خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کے روضہ میں معتکف رہا۔ عرفہ کی ایک رات روضہ متبرکہ کے نزدیک نماز ادا کی اور وہیں کلام اﷲ پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی رات گزری تھی کہ میں نے پندرہ سپارے ختم کر لئے‘سورۃ کہف یا سورۃ مریم میں ایک حرف مجھ سے ترک ہوگیا۔ حضرت مخدوم کے روضہ سے آواز آئی کہ یہ حرف چھوڑ گئے اسے پڑھو۔ دوبارہ آواز آئی عمدہ پڑھتا ہے۔ خلف الرشید ایسا ہی کیا کرتے تھے‘جب میں قرآن پڑھ چکا تو حضرت خواجہ کے پائینتی پر سر رکھ دیا اور رو کر مناجات کی کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کس گروہ میں سے ہوں۔ یہی فکر تھی کہ روضہ اطہر میں سے آواز آئی کہ مولانا جو شخص یہ نماز ادا کرتا ہے وہ بخشے ہوؤں میں سے ہے۔
پھر حضرت خواجہ کے قدموں کی طرف سر رکھ دیا تو معلوم ہوا کہ ٹھیک میں اس گروہ میں سے ہوں جیسا کہ فرمایا تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہاں سے بہت سی نعمتیں حاصل کرکے چلا آیا۔
حضرت خواجہ قطب الدین کی بسم اﷲ خوانی
1177ء میں آپ اوش تشریف لائے جس کا شہرہ تمام شہر میں ہوا‘ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی والدہ ماجدہ نے قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں بسم اﷲ خوانی کیلئے بھیجا‘ قطب صاحب کی عمر عزیز اس وقت چار سال‘ چار ماہ اور چار یوم تھی‘ خواجہ صاحب نے قطب صاحب کی تختی لکھنا چاہی تو غیب سے آواز آئی…,, اے خواجہ! ابھی لکھنے میں توقف کرو‘ حمید الدین ناگوری آتا ہے وہ ہماری قطب کی تختی لکھے گا‘‘۔
حضرت جہانیاں گشت کے سلام کے جواب میں لحد سے دست مبارک برآمد ہوا
حضرت جہانیاں جہاں گشت (حضرت جلال الدین حسین) اپنے سفر نامہ میں حضرت سلطان الہند کی بارگاہ میں پہنچنے کا احوال لکھتے ہیں کہ فقیر جب آپ کے مزار پر حاضر ہوا تو عرض کی اسلام و علیکم یا خواجہ خواجگان سید الاولیائ‘ مجھے دست بوسی کا شرف بخشیے۔ چنانچہ تربت انوار سے آپ کا دست مبارک برآمد ہوا اور و علیکم اسلام کی آواز بھی سنائی دی۔ یہ منظر دیکھ کر خدام حیران اور اجمیر شریف کے لوگ حضرت جہانیاں شاہ گشت کے گرویدہ ہوگئے۔
انیس الارواح
,, انیس الارواح‘‘ آپ کے ملفوظات کی برگزیدہ تصنیف ہے۔ یہ آپ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی زبان فیض سے جاری ہونے والے کلمات ہیں جو آپ درج کرایا کرتے۔ ,,انیس الارواح‘‘ تصوف وطریقت کو سادہ اور عمدہ اسلوب میں سمجھے کا عام فہم طریقہ ہے۔
بڑی دیگ‘ چھوٹی دیگ
مغل اعظم جلال الدین اکبر نے آپ کی چوکھٹ پر نذر مانی تھی کہ چتوڑگڑھ کا مشکل ترین قلعہ فتح ہوا تو یہاں دیگ نذر کروں گا۔ فتح کے بعد اس نے بڑی دیگ نذر کی جس میں بیک وقت سوا سو من چاول بآسانی پکتے ہیں۔ یہ دیگ تیرہ گز بلند اور ساڑھے بارہ گز چوڑی ہے جبکہ بلند دروازے کے مشرق میں شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے چھوٹی دیگ نصب کرائی اس میں ساٹھ من چاول پکتے ہیں۔
باوضو سونے کی فضلیت
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ جو بندہ رات کو طہارت سے سوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک وہ بیدار نہ ہو اس کے قریب رہو۔ فرشتے اس کی روح زیر عرش لے جاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ اسکو خلعت نور پہنچائی جائے اور جو شخص بغیر طہارت کے سوتا ہے اس کی روح کو آسمان اول سے گرایا دیا جائے۔
ہذاحبیب اللہ مات فی حب اللہ۔
’’وہ خدا کا حبیب تھا اور خداکی محبت میں انتقال کیا۔‘‘
جس رات خواجہ غریب نواز کا وصال ہوا،چند اولیاء اللہ نے حضرت محمدؐ کو خواب میں دیکھا کہ حضورؐ فرماتے ہیں:
’’معین الدین حق تعالیٰ کا دوست ہے۔ ہم آج اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔‘‘
6رجب 627 ھ بمطابق 21 مئی 1229ء دوشنبہ کے دن عشاء کی نماز کے بعد غریب نواز نے اپنے حجرہ کا دروازہ بندکیا۔ کسی کو بھی حجرہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔حجرہ کے باہر خدام حاضر تھے۔رات بھر ان کے کانوں میں صدائے و جد آتی رہی۔ رات کے آخری حصہ میں وہ آواز بند ہوگئی۔صبح کی نماز کا وقت ہوالیکن دروازہ نہ کھلا۔خدام کو تشویش ہوئی آخر کار دروازہ توڑاگیا۔ لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ خواجہ غریب نوازرحمت حق میں پیوست ہوچکے ہیں۔آپ کی جبین مبارک پر بخط قدرت یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
ہذاحبیب اللہ مات فی حب اللہ۔
’’وہ خدا کا حبیب تھا اور خداکی محبت میں انتقال کیا۔‘‘