عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ اعلیٰ، صحافت کی دنیا کے لا فانی کردار، اور تحریک پاکستان کے چشم دید گواہ محترم المقام الطاف حسن قریشی کی سقوط مشرقی پاکستان کے متعلق ہمہ گیر اور چشم کشا تحریروں کو ضخیم کتابی شکل دے کر جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہو گا۔ کتاب کے بیک جلد پر تحریر شدہ فلیپ کی آخری سطر وں نے مجھے دونوں احباب کے مشرقی پاکستان کے ساتھ قلبی لگا و¿ اور محبت بھرے جذبات سے سے روشناس کرایا ”ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ اسلامی حمیت کے بروئے کار لا نے سے بنگلہ دیش اور پاکستان ماضی کی تلخیاں بھلا تے اور غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آجائیں اور ٹوٹا ہوا تارا آخر کار. مہ کامل بن جائے۔“
یہی آرزو لیے جنت مکین مجید نظامی اس د نیا سے رخصت ہو گئے کہ شکر ہے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر ہندوستان میں ضم نہیں ہوا پھر گہری سانس لیتے ہوئے نم آلودہ آنکھوں میں آنسو چھپا تے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے”جنوبی ایشیا میں دو پاکستان بن گئے چلیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔“
الطاف حسن قریشی کے دل میں یہ حسرت نا تمام قیامت خیز دکھ کے ساتھ آہ و فغاں کر رہی ہے۔ وہ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات بیان کرنے کے بعد اپنے تجزیے کو ان الفاظ میں سمیٹتے ہیں
"مجیب الرحمن نے 24 مارچ کو جو فا رمولا پیش کیا تھا اسے قبول کر نے میں آخر خرابی کیا تھی؟ اگر دو دستور ساز کنونشن کام شروع کر دیتے تو شدید تصادم کی فضا آہستہ آہستہ تحلیل ہو جاتی اور سیاسی عمل شروع ہو جاتا۔ فوج کو اپنی نئی حکمت عملی طے کر نے کا موقع مل جاتا - ممکن ہے اس عرصے میں نئے عنصر داخل ہو جاتے اور کوئی بہتر سیاسی سمجھوتہ عمل میں آ جا تا - زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ پاکستان میں فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن قائم ہو جاتی پھر بھی بنگلہ دیش کے ساتھ ایک رشتہ قائم رہتا "
میں ان کی خدمت میں یہی عرض کروں گا کہ ہم تو بنگالی بھائیوں کے لئے اجنبی ٹھہر چکے ہیں۔ آپ لاکھ جتن کر لیں ہماری بدقسمتی کہ ہم دو بھائیوں کی طرح علیحدہ نہیں ہوئے جیسا کہ ٹوٹا ہوا تارا میں الطاف صاحب لکھتے ہیں" پروفیسر جی ڈبلیو نے 6 ستمبر 1971 کو یحییٰ خان سے راولپنڈی میں ملاقات کی جنرل یحییٰ خان نے پژمردہ لہجے میں کہا" اگر ساڑھے سات کروڑ بنگالی ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بر صغیر میں دو مسلم ریاستیں بھی قائم ہو سکتی ہیں، ہماری بدقسمتی کی انتہا کہ جنرل یحییٰ کو اس نکتے تک پہنچنے کے لیے مشرقی پاکستان کو خون کا غسل دینا پڑا اور پاکستان کی عظیم الشان فوج کو ہتھیار ڈالنے کی اذیت سے گزرنا پڑا"
ہم کون سی جرمن قوم ہیں کہ دوبارہ مل جائیں۔ خاک وخون کے دریا بہا نے کے بعد کیسے وہ دل صاف کر لیں گے
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
اب تو سقوط ڈھاکہ سے جو اسباق ہمیں ملے ہیں جن کا تفصیلی ذکر الطاف صاحب نے ٹوٹا ہوا تارا میں اپنے پر مغز مضامین میں کر دیا ہے ان سے کچھ سیکھ کر باقی ماندہ پاکستان کو متحد اور معاشی، سیاسی طور پر مستحکم کر لیں ۔اب تو وہ بنگالی جن کو مغربی پاکستان کے حکمران اور اشرافیہ کم تر اور حقیر خیال کرتی تھی معاشی طور پر ہم سے زیادہ مضبوط ہیں ان کا ایک ٹکہ ہمارے دو روپے سے بھی زیادہ قیمت کا ہے تو وہ کیوں کر ہم سے دوبارہ سلسلہ محبت کا آغاز کر دیگا ۔
پاکستان کے بہا در اور مایہ ناز فوجی افسران اور جوان کبھی بھی ہتھیار نہ ڈالتے، اگر ان کی لیڈر شپ پستیوں کی اتھاہ گہرا ئیوں میں نہ گر چکی ہوتی۔ الطاف صاحب رقمطراز ہیں "مستقبل کا مورخ ضرور یہ فیصلہ دے گا کہ مشرقی پاکستان کو خون ریزی اور بدنامی سے بچایا جا سکتا تھا مگر جنرل یحییٰ کے ایل ایف او نے دونوں بازوﺅ ں کے مابین سیاسی توازن ختم کر کے علیحدگی کا راستہ کھول دیا تھا - انتخابات کے نتائج نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی ناطہ توڑ ڈالا تھا۔
الطاف حسن قریشی صحافت کی دنیا کے جھومر ہیں اسلام، پاکستان اور جمہوریت کے لیے انکی لازوال خدمات کا تذکرہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا وہ ساری عمر بے تیغ سپاہی کی طرح لیلائے وطن کی چاہت میں کلمہ حق بلند کرتے رہے ہیں اور آج بھی اس پیرانہ سالی میں جاری وساری ہے
انہوں نے اپنی تحریروں اور کردار کی پختگی سے نسلوں کی ذہن سازی اور اسلامی اقدار کی آبیاری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ قید وبند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے تمام بڑے بڑے لیڈروں سے بالمشافہ ملنے اور ان سے طویل انٹرویو لینے کا اعزاز رکھتے ہیں مگر یہ درویش طبع عظیم المرتبت شخص کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوا بار بار ایسا ہوا کہ حکمرانوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ گیا مگر وہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریہ پاکستان اور سید مودودی کے اسلامی نظریہ حیات کے فروغ کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ ہشت پہلو اور ہمہ صفت الطاف حسن قریشی کے قلم سے آج بھی حق وسچ کی صدا بلند ہو رہی ہے۔
الطاف صاحب کی سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق دلسوز تحریروں کا مطالعہ ہر حساس دل انسان کو شدید کرب میں مبتلا کر دیتا ہے دکھ، غم پچھتاوے، اہل اقتدار کی بوالہوسی، مفادات کی جنگ میں وطن عزیز اور مظلوم و مقہور انسانوں کی تباہی وبربادی کی تصویر کشی اور مصنف کی اپنی بے بسی کا اظہار دل ودماغ میں ایسا طوفان برپا کر دیتا ہے کہ اسے کا الفاظ میں اظہار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے پتہ نہیں ایسے ناسور اور غدار اس وطن عزیز سے کب ختم ہونگے، کون ختم کرے گا، کیسے کرے گا۔