بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کو غداری کے مقدمہ کا سامنا صرف تین نومبر دو ہزار سات کے اقدامات کے باعث کرنا پڑا ،جبکہ انکے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے اقدامات جس میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا یا گیا تھا اور ملک کی باگ ڈور سنبھالی گئی تھی ، آئین معطل کیا تھا، اپنا پی سی او متعارف کرایا تھا اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے بھی پی سی او کے تحت دوبارہ حلف برداری کروائی گئی تھی، ان تمام غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ نے توثیق کر دی تھی، اور عدالت نے ان اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا اور یوں ایسا کام جس کے کرنے سے کسی بھی شخص پر آئین کے ٓرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا تھا ، اسے غدار کہا جاتا تھا اسے ہماری منتخب پارلیمنٹ اور عدالت نے اس غداری، آئین شکنی کے گناہ کو نظریہ ضرورت کے تحت جائزقرار دے دیاتھا۔ نکتہ غور طلب ہے کہ ایسا قبیح گناہ جس کے لئے قانون میں موت کی سزا تجویز ہے وہ کس طرح سے نظریہ ضرورت کے تحت جائز و حلال ہو سکتاہے۔
کئی برس قبل جب پرویز مشرف کا ایک خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمہ میں ٹرائل شروع ہوا تو اپنی پہلی پیشی میں پرویز مشرف جب ملزموں کے کٹہرے میں پیش ہوئے تو انہوں نے بنچ سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کی، عدالت کی اجازت سے پرویز مشرف نے ایک لمبی چوڑی تاریخ ساز تقریرکی جس کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ جناب عالی مجھ پر غداری کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ غدار تو وہ ہوتا ہے جو ملک و قوم کے خلاف کام کرے، ملک کے خلاف جاسوسی کرے یا قومی خزانہ یعنی عوام کی دولت لوٹے، جبکہ میں نے جو بھی اقدامات کئے وہ ملک بچانے کے لئے ملک و قوم کی بھلائی کے لیئے کیئے تھے ، جبکہ قومی خزانہ لوٹنے والے تو اصل میں ملک کے دشمن ہیں جو پارلیمنٹ میں صادق اور امین بن کر بیٹھے ہیں۔ پرویز مشرف کی انہی معروضات سے متاثر ہو کر استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے وضاحت کی کہ یہ غداری کا نہیں بلکہ آئین شکنی کا مقدمہ ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے خلاف مقدمہ میں اپنا دفاع اسی ایک نکتہ پر کیا کہ اگر معروضی حالات ایسے ہو جائیں کہ ملک اور آئین میں سے کسی ایک کو بچانا ہو تو ایسی صورت میں ملک و ریاست کو بچانے کو فوقیت دی جائے گی، ملک و ریاست ہو گی تو آئین ہو گا، ملک ہی نہ رہے تو پھر آئین محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی کہلائے گا ، یہی وہ تاویل تھی جس کی بنیاد بارہ اکتوبر کے اقدامات کو عدلیہ اور پارلیمنٹ نے درست قرار دے دیا۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے کہ آئین سازوں نے قانون میں لکھ دیا کہ آئین توڑنے والا تو غدار ہو گا ، لیکن آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کے گناہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، آئین کی خلاف ورزی میں آپ قومی دولت کو لوٹیں، کرپشن کریں ، دونوں ہاتھوں سے عوام کی دولت لوٹیں ، غیر ممالک میں جائیداد بنائیں ، اپنی دولت پاکستان سے باہر منتقل کریں، ملک کو دیوالیہ کریں ، اپنے اثاثے چھپائیں۔ یہی تمام کرتوت کرنے والے کبھی غدار نہیں کہلائیںگے، بلکہ عدالتوں سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ لے کر قومی دولت کی رکھوالی پر بیٹھیں گے،گویا کرپشن کے ذریعے ملک کو دیوالیہ کر دینا کوئی بڑا جرم نہیں، ضمانتیں اور عدالتی کلین چٹ مل جائے گی، ہاں اگر ملکی بقا و سلامتی کی نیت سے کوئی ماورائے آئین اقدام کرے گا تو وہ موت کی سزا کا حقدار ہو گا ، یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ گر آپ اپنی تنخواہ چھپائیں گے تو آپ غیرصادق اور غیر امین قرار دیکر تا حیات نا اہل قرار دیئے جائیں گے ،ایک کرپٹ اور دہشت گردی کا مجرم، یا زنا بالجبر کا ملزم صرف پانچ سال کی نااہلی کے بعد دوبارہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا اہل ہو جاتا ہے ، کہتے ہیں جمہوریت پسندوں نے ملک میں جمہوریت کی بقا و فروغ کے لیئے آئین شکنی کو غداری کے مصداق قرار دیا تھا تا کہ کوئی عسکری راہنما کسی بھی مس ایڈوینچر سے باز رہے۔
خصوصی عدالت کے ایک جج صاحب نے بھی پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں ایسا فیصلہ سنایا جو بذات خود ایک ماورائے آئین اور ماورائے قانون تھا اور انسانیت کی تذلیل کے مساوی تھا ۔ یعنی ایک ماورائے آئین اقدام کے مقدمہ میں عدالت نے ماورائے آئین فیصلہ دیا اور مروجہ ضابطوں کی دھجیاں اڑا دیں ، یہاں تک کہ آئینی و قانونی ماہرین نے ایسا فیصلہ دینے والے کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی ہو جانے کا عندیہ دیا تھا ۔ اصل میں یہ وہ بغض اور نفاق تھا ،جس کے باعث ایسے فیصلوں کی نوبت آئی۔ یہی فیصلہ قانون اور ضابطہ فوجداری کے عین مطابق بھی ہو سکتا تھا۔ پرویز مشرف کا دور حکومت بطور چیف ایگزیکٹو، بطور چیف آف آرمی سٹاف، بطور صدر مملکت ایک بھر پور دور تھا جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ قومی اہمیت کے حامل فیصلے وہی ہوتے ہیں جو اس وقت کے معروضی حالات کے مطابق ہوں۔، قانون کی کتابیں آسمانی صحیفہ نہیں ہیں بلکہ قابل ترمیم ہیں ، آئین پاکستان بھی انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے،اور قانون کی بنیادی خوبی ہی اس کی لچکدار فطرت ہے۔ جیسے آئین کے آرٹیکل چھ میں درج ہے کہ آئین پامال کرنے والا اور اس کام میں اس کی اعانت کرنے والا ، مددگار بھی برابر کا شریک ہو گا۔ لیکن پرویز مشرف کے کیس میں مقدمہ چلانے والوں اور فیصلہ کرنے والوں نے آرٹیکل چھ کی اس تعبیر کو یکسر نظر انداز کیا اور تمام سہولت کاروں اور اعانت کاروں کی موجودگی اور نشاندہی کے باوجود تمام تر توپوں کا رخ صرف جنرل پرویز مشرف کی طرف رکھا گیا جوکہ بذات خود آئین سے رو گردانی کے مترادف تھا ۔
پرویز مشرف اپنی طبعی موت کا شکار ہو کر اس جہاں سے گزر گئے اور انکے مخالفین جو کہ آرٹیکل چھ کے تحت انہیں تختہ دار پر دیکھنا چاہتے تھے انکی خواہش دل میں رہ گئی ۔سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف اپنے مخالفین سے کبھی خائف نہیںہوئے تھے ، اور یہ رعب و دبدبہ مرتے دم تک قائم رہا۔انکے مخالفین کو مایوسی ہوئی۔