ڈاکٹرعارفہ صبح خان………تجا ہلِ عا رفانہ
یُوںلگتا ہے کہ پاکستان میں قیامت کی ر یہرسل چل رہی ہے۔ اب تو پاکستانی بھی علی اعلان کہنے لگے ہیں کہ پاکستان میں ہم اتنے پُل صراط عبور کر چکے ہیں اور جہنموں سے گزر چکے ہیں کہ ہم پر آسمان کی جہنم حرام ہو چکی ہے۔ حقیقت ہے کہ ان 75سالوں میںجو چار نسلیں آئیں ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں وہ تماشے، کرب، وہ المیے اوربھوک افلاس دیکھی ہے کہ ہر گزرا ہوا وقت آنیوالے وقت سے بہتر لگتا ہے۔ موجودہ حکومت نے تو عوام کو ناکوں چنے ہی نہیں چبوائے۔ اُنھیں فاقہ کشی پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے تمام تر دعووٰں وعدوں کے بعد عوام کو چکی میں پیس ڈا لا ہے۔ لوگ عمران خان کی حکومت کو برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن موجودہ حکومت کے بارے میں عوام میں اس قدر اشتعال نفرت اور بغاوت پیدا ہو چکی ہے کہ اگر مہنگا ئی مزید بڑھائی تو لوگ خون خرابے پر اُتر آئیں گے۔ پاکستان کی تا ریخ بلکہ دنیا کی تا ریخ میں سو نا کبھی اتنا مہنگا نہیں ہوا تھا جتنا چھ ماہ میں ہوا ہے۔ ہنسنے یا شاید رونے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں چند لاکھ کو نکال کر باقی کے 22کروڑافراد کی اتنی اسطاعت ہی نہیں کہ وہ سوناخریدیں۔ دو لاکھ دس ہزار کا ایک تولہ سونا جس کی ایک انگوٹھی ہی بن سکتی ہے۔ بھلا کون غریب آدمی یہ عیاشی کر سکتاہے۔ پاکستان میں 15کروڑ عوام کی آمدنی 25ہزارسے زیادہ نہیں ہے۔ لوگ ایک ایک روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ایسے میں پٹرول بجلی گیس سمیت تمام اشیائے خوردنی میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ریلوے کے کرائے دس فیصد بڑھا دئیے گئے ہیں جبکہ وہی انگر یزوں کے زمانے کے ریلوے سٹیشن، بوگیاں، پٹریاں اور بوسیدہ ٹرینیں ہیں۔ ریلوے سٹییشنز پر کسی قسم کی سہولت نہیں۔ صفا ئی تک نہیں ہوتی۔ کتے بلیاں اور بڑے بڑے چو ہے چھچھوندریں بنچوں کے نیچے ہو تے ہیں۔ گندگی اور غلاظتوں کے ڈھیر۔ پھر بھی دس فیصد کرایہ بڑھانے کی کیا وجہ ہے۔ اسی طرح ہوائی جہازوں بسوں ویگنوں ٹیکسیوں کے کرایوں میں بیش بہا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گھی آٹا چینی گوشت کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ ہر چیز عوام کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں اشیاء پر ٹیکس بڑھا دئیے ہیں۔ سبزیاں اتنی مہنگی ہیں کہ لوگ خریدنے سے قا صر ہیں۔ غریب آدمی دال بھی کھانے کے قا بل نہیں رہا۔ اتنا شور مچا رکھا تھا کی اسحاق ڈار آئیگا تو معیشت میں استحکام آ ئیگا۔ اسحاق ڈار نے تو قوم کو عذاب میں ڈال دیا ہے۔ خود لندن میں مزے کرتے رہے اور جب حکومت جانے میں دس گیارہ ماہ رہ گئے تو سنیٹر کا حلف اٹھا کر ایک ارب روپیہ وصول کر لیا۔ یہ حلف اول تو بنتا ہی نہیں تھا کیونکہ یہ حلف وقت پر نہیں اٹھایا گیا تھا پھر سوا چار سال سینٹ نہیں آئے تو کس چیز کی تنخواہ، کس بات کی مرا عات؟ کیا پر فارمنس یا خدمت انجام دی ہے جس کی بھاری بھر کم تنخواہ وصول کی ہے؟ اور اب بطور وزیر خزانہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ماہانہ اخراجات ہیں۔ عوام کو کیا ریلیف دیا ہے؟ مہنگائی کے حوالے سے عوام میں شدید غم و غصہ ہے اور لگ رہا ہے کہ اگر عوام کو ریلیف نہ ملا تو پاکستانی بغاوت پر اُتر آئیں گے۔ پاکستان میں ترکی مصر ایران فلپائن کی طرز پر انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی آمدن میں آپ نے چوّنی کا اضافہ نہیں کیا لیکن اُن پر ہزاروں لاکھوں کے ٹیکس لگا دئیے ہیں۔ ہر چیز مہنگی کر کے پاکستانیوں پر عذاب مسلط کر دئیے ہیں۔ آخر اشرافیہ اپنے اللّے تللّے کیوں نہیں چھوڑتی۔ وزیروں کی فوج ظفر موج کیا کر رہی ہے۔ کسی ایک وزیر کی پرفارمینس سامنے رکھ کر بات نہیں کر سکتے۔ خدا کی پناہ کہ76 وزیر اور تین چار درجن مشیر و معاون خصوصی وہ رکھتا ہے جس کے پاس خود قوتِ فیصلہ نہ ہو۔ یہ وزیر مشیر محض خزانے پر بوجھ اور قوم کے لیے دردِسر ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی قابل لائق ہوتے اور کو ئی قا بل ذکر معا شی تجاویز دی ہو تیں تو آج دس ماہ بعد پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔میرے خیال میں لاتعداد طریقے ہیں صرف اگر ایک مد میں سارے پاکستان میں تمام سیاسی عہدوں پر بیٹھے افراد کو گاڑی و پٹرول بند کر دیا جائے، تو اربوں کھربوں کی بچت کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ایک شخص جس کی ٹانگ پر چار پانچ ما ہ گزرنے کے بعد بھی پلستر اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر روز لوگوں کی توجہ حا صل کرنے کے لیے ایک نیا سوانگ بھرتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے کیا خوب کہا تھا کہ ہر بوڑھے کی بات پر کان نہ دھرا کریں، کچھ احمق بھی بو ڑھے ہو جاتے ہیں۔ یہ محاورہ موصوف پر صادق آتا ہے کیونکہ جب دھرنے دیتے تھے تو مرد و زن سے دھمال اوررقص کراتے تھے۔ پہلے حکومت سے استعفیٰ لینے کے لیے دھرنے مظاہرے جلسے جلوس ہڑتا لیں کیں لیکن پھر خود استعفیٰ دے دئیے۔ اسکے بعد کہا کہ ہم کرپٹ ٹولے کی حکومتیں گرا دیں گے لیکن سب کی حکومتیں قا ئم رہیں۔ وفاقی حکومت، سندھ بلوچستان گلگت بلستان کشمیر میں حکومتیں آج بھی کام کر رہی ہیں لیکن عمران خان نے خود اپنی دونوں صوبائی حکومتیں تو ڑ دیں۔ تو ڑنے جا رہے تھے کرپٹ ٹولے کی حکومت اور تو ڑ ڈا لیں اپنی حکومتیں ۔ پھر کہا کہ 31 حلقوںسے الیکشن لڑوں گا۔ یہی بات انتہا ئی مضحکہ خیز اور احمقانہ تھی کیونکہ کیا اتنے حلقوں سے لڑ کر ایک امیدوار جیت بھی جائے تو اُسے سیٹ ایک ہی رکھنی ہو تی ہے۔ اسطرح تو خود اپنے سا تھیوں کا حق مارنے اور پارٹی مروانے کا منصوبہ بنایا۔ جو نہی پتہ چلا کہ چند دنوں میں حضرت نا اہل ہونے جا رہے ہیں تو الیکشن کمیشن تو درخوا ست دیدی کہ کہیں سے الیکشن نہیں لڑوں گا۔ پہلے جنرل ریٹا ئرڈ باجوہ کی تعریفوں کے پُل باندھتے تھے۔ اب ہر بات کا الزام اُ ن پر لگا یا جاتا ہے۔ پہلے کہا کہ چیف آف آرمی کو ایکسٹینشن نہیں دوں گا۔ پھر ایکسٹینشن دے دی۔ پھر کہا کہ ریاست کے لیے قمر باجوہ کی اشد ضرورت ہے پھر کہا کہ یہ آدمی مجھے کو ئی کام کر نے نہیں دیتا۔ اس نے مجھے بہکایا ڈرایا دھمکایا و غیرہ وغیرہ۔ عمران خان کو پتہ چل گیا ہے کہ موجودہ حالات میں اُنکی سیاست ختم ہو رہی ہے تو انہوں نے کارکنوں کو کہنا شروع کر دیا کہ جیل بھر تحریک شروع کرو۔ اُو بھائی، جیل بھرو تحریک کا آغاز آپ اپنی ذات سے کیوں نہیں کرتے۔ لیڈر ہو تا ہے جو مشکل را ستے پر پہلے خود چل کر دکھاتا ہے۔ حیرت ہو تی ہے کہ ہمارے مقدر میں کیسے کیسے عقل سے پیدل، گا ئودی، خود غرض، حریص، ابن الوقت حکمران لکھے ہیں۔ آج تک اقتدار کے ان نام نہاد بھوکے موجودہ لیڈروں نے پاکستان کو برباد کرنے کے سِوا کیا ہی کیا ہے؟ تم سب وقت کے اُس بھیانک تھپڑ سے ڈرو جو قدرت جوش میں آ کر مارتی ہے اور سارا منظر بدل جاتا ہے۔ حذر اے بے خبرو۔۔۔