پروفیسر محمد مظہر عالم
شیخ سعدی کا یہ قول اگرچہ آج کے کم و بیش سبھی اور سابق سیاستدانوں / حکمرانوں کے کردار و افعال پر منطبق آتا ہے کہ جن سے عوام نے بار بار دھوکا کھایا، لیکن کسی نہ کسی طور پر ان کے پرفریب نعروں اور نئی نئی چال بازیوں سے اپنے لیے آسودگی ڈھونڈتے رہے لیکن بامراد نہ ہو سکے۔ ہم نے بحیثیت مسلمان اپنے آقائے نامدار نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے یکسر چشم پوشی کر رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں کیا حکمران کیا عوام سبھی مجرم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے ’’مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا‘‘ ہمیں سمجھانے کے لیے سادہ اور فہم والا فرمان اور نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الحمد للہ، ہم مسلمان تو ہیں لیکن مومن قطعاً نہیں ہیں۔
اگر مومنانہ فرداست رکھتے تو آج کے حالات جیسے ہیں کبھی بھی ایسے نہ ہوتے جو حکمران کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو عوام چاہتے ہیں وہ حکمران اپنے وعدوں کے مطابق کر نہیں پاتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ہم سبھی تضادات کا شکار کیوں ہو گئے۔
دراصل جو نظامِ حکومت ہمیں ورثہ میں ملا ہے وہ تو انگریزوں نے اپنے انتظامی معاملات چلانے کے لیے قائم کیا تھا۔ جس میں اختیارات و ذمہ داری کے عجیب ضابطے بنائے گئے۔ حکمرانوں اور عوام میں اس قدر فاصلہ تھا کہ ایک دوسرے کے حالات کو دونوں سمجھنے سے قاصر تھے۔ انگریز تو گئے لیکن ہمارے لیے جو نظام چھوڑ کر گئے وہ مقامی بیوروکریٹس اور سیاستدانوں میں آغاز کے چند سال بعد رسہ کشی کا باعث بنتا گیا۔ وطنِ عزیز کے سیاسی نظام میں شروع شروع میں جاگیرداروں کا غلبہ تھا۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں عوام کے حقوق کی خاطر قانون سازی کم، مگر قارون سازی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ خاص کر پنجاب اور سندھ کے جاگیردار بتدریج سیاسی امور میں اس حد تک دخیل ہوئے کہ عوام کے مفادات اور حقوق کی بات کم ہونے لگی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ آزادی کے کم و بیش پہلے عشرہ میں حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور نتیجہ کے طور پر 1958ء کے مارشل لاء کا نفاذ ، ایسا آغاز تھا جس نے ہمارے وطنِ پاک کے استحکام کی بجائے اس کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ چند خاندان ہوسِ اقتدار اور ہوسِ مال کے ایسے رسیا ہوئے کہ پھر یہ بدعنوانیوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ صنعتی و سرمایہ دار خاندان بھی اس دوڑ میں شامل کئے گئے۔ گروہی تعصبات، خاص طور پر صوبائیت اور نسلی تفاخر بھی کچھ کم نہ ہوئے۔ اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ قیامِ پاکستان میں سب سے زیادہ خدمات مشرقی بنگال کے سیاسی راہنمائوں کی تھیں۔ مسلم لیگ کے قیام سے لے کر 1945-46ء کے انتخابات تک مشرقی بنگال کا کردار سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ مگر ہمارے بعض سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کے قیام کی خاطر ان حقائق سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی کی۔ ملک کے دو حصے کیا ہوئے کہ پھر یہ کرچیاں، کرچیاں ہوتے ہوتے ہماری معاشی و سیاسی تباہی کا باعث بن بنیں اور آج تجربہ کار سیاستدانوں کی موجودگی میں وطن کا بچہ بچہ نہ اترنے والے قرض میں ایسا جکڑا گیا ہے کہ اربابِ اختیار تو شاید اس سے نابرد آزمانہ ہوں مگر عوام کا ایک ایک دن فاقوں اور افلاس سے گزرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرپرسن آصف علی زرداری کا بیان نوائے وقت سمیت شاید تمام اخبارات کی زینت بنا ہو کہ کم از کم اجرت 35 ہزار مقرر کی جائے۔ خدا کا خوف نہیں! جناب زرداری صاحب 35 ہزار میں کسی ایک مزدور کے گھر کا بجٹ خود یا اپنے کسی مشیرِ خاص سے بنوا کر پیش کر دیں۔
جاں سوز کی حالت کو جاں سوز ہی سمجھے گا
بعینہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ حکومت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ان کے خانوادہ کو نہ ہی کمانے ، کھانے اور لگانے کی فکر ہے اور آج عوام کے مسائل کو کم اور ایک دوسرے پر سیاسی گند پھینکنے پر سبھی مصروفِ عمل ہیں۔ عوام کے حقیقی دکھ درد بانٹنے اور ان کی مشکلات کے ازالہ کے لیے کوئی کچھ بھی نہیں کر رہا۔ ملک میں انتظامی بدنظمی کا یہ عالم ہے کہ غریب محض آٹا کے حصول کے لیے ٹرکوں کے پیچھے بھاگ کر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں ۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم جبکہ ہمارے ملک میں اس کی قیمتیں نہایت بلند سطح پر۔ جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ خریدنا عوام کے اختیار میں نہیں رہا۔ ہمیں طے یہ کرنا ہے کہ آیا ہمیں وطنِ پاک کے نامساعد حالات اور وسائل کے نہ ہونے کی بدولت اس نظام کو بار بار آزمانے کی کیا ضرورت ہے؟ جس نے حکمرانوں اور ان کے تمام متوسلین کو معاشی طور پر اتنا توانا کر دیا ہے کہ انہیں عوامی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔ آئین میں عوامی حقوق کے لیے ریفرنڈم کروانے کی گنجائش موجود ہے اور کیوں نہ مقتدر طبقہ غیر جانبدارانہ طور پر مؤثر انداز میں اس نظام کی خرابیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عوام سے رائے لے کہ کیا ہمیں اس فرسودہ اور بوسیدہ نظام کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کم اور قارون سازی ہی ہوتی رہی اور تمام کا تمام انتخابی عمل اس لیے سیاستدانوں کے لیے پرکشش ہے کہ کروڑوں لگا کر ملک پر اربوں روپے کے قرض کا باعث بنیں۔ آپ ایسے نظام کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جس کی بدولت قرض کے سود اُتارنے میں ہماری سالمیت کا جنازہ ہی نہ نکل جائے۔
اٹھو کہ پھر نہ ہو گا حشر کبھی
دوڑ و کہ آئی ۔ ایم ۔ ایف چال قیاست کی چل گیا