اسلام آ باد (نوائے وقت رپورٹ) چینی اور پاکستانی ادارے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کریں گے،چین نہ صرف پاکستانی ادارے کو ٹیکنالوجی بلکہ اپنا عملہ بھی فراہم کرے گا اس ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کو پاکستان میں زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرے گا۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کی ایک وجہ حالیہ بدترین سیلاب ہے، ایک ایسا سیلاب جس نے پاکستان کی بنیادی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت بالخصوص عام لوگوں کی زندگی کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے اس لیے پورا ملک اس سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔گوادر پرو کے مطابق اس موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان اپنے پڑوسی اور دوست ملک چین کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے ماہرین اکٹھے ہوئے ہیں اور مختلف قسم کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو حالات سے نمٹنے کے قابل بنانے کے لیے اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ چین کی نیچرل سائنس فاؤنڈیشن کے ذیلی ادارے سی آر ایس آئی آر اور لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز نے ایک مشترکہ پروجیکٹ تیار کیا ہے جس میں چین اور پاکستان کے ٹراپیکل خطے میں آبی توانائی کے فوڈ لنکج میں موسمیاتی تبدیلی کا جائزہ اور ضابطہ کار شامل ہے ۔ گوادر پرو کے مطابق سی آر ایس آئی آر کے پاس پانی کے تحفظ اور پانی کے سائیکل کے نمونوں کا وسیع تجربہ ہے اور پاکستانی یونیورسٹی سی آر ایس آئی آر کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں مزید نقصان کو روکنے کے لیے پروجیکٹ متعارف کروانا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ اس قسم کا دوسرا منصوبہ ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں اس طرح کا صرف ایک منصوبہ منظور ہوا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کی پن بجلی اور خوراک کی فراہمی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ان کی حفاظت اور ترقی کیسے کی جا سکتی ہے۔ گوادر پرو کے مطابق یہ منصوبہ ان تمام ضروریات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان قدرتی وسائل کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے لائیں گے کہ ان قدرتی وسائل کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چینی اور پاکستانی ادارے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کریں گے اور چین نہ صرف پاکستانی ادارے کو ٹیکنالوجی فراہم کرے گا بلکہ اس ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کو پاکستان میں زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرے گا۔ چین اپنا عملہ بھی فراہم کرے گا۔گوادر پرو کے مطابق ہم چین کی جانب سے غذائی تحفظ کے حوالے سے پاکستان میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کا کامیاب مظاہرہ دیکھ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں خوراک کے ذرائع کو بری طرح متاثر کیا ہے اور پاکستان کو ان اجناس میں سے زیادہ مقدار دنیا کے ممالک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جن میں سویا بین ایک اہم قسم ہے۔ تاہم سویابین کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس کی آب و ہوا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کاشت نہیں کی جا سکتی اس لیے اس کی درآمد پر بہت زیادہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین چین کی انٹرکراپنگ تکنیک سے فائدہ اٹھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان کے سائنسی حلقوں میں اس وقت ایک نام سنائی دے رہا ہے۔ وہ اس ٹیکنالوجی پر بہت محنت کر رہے ہیں اور وہ ڈاکٹر علی رضا ہیں جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے منسلک ہیں اور حال ہی میں چین کی معروف سیچوان زرعی یونیورسٹی سے گریجویشن بھی کر چکے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں اس نے مختلف فصلوں کی انٹرکراپنگ تکنیک کا علم حاصل کیا ہے اور اب وہ اپنے علم کو سویا بین کی انٹرکراپنگ میں استعمال کر کے اسے متعارف کروا رہے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان میں سویابین کی کاشت نہ ہونے کی ایک وجہ موسم بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہے کہ اسے مکئی کا مد مقابل سمجھا جاتا ہے اور کسان مکئی کی جگہ اس فصل کو کاشت نہیں کرنا چاہتے۔ اس انٹرکراپنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے دونوں فصلوں کو ایک ساتھ کاشت کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان سویابین میں خود کفیل ہو جائے گا بلکہ پاکستان اسے برآمد کر کے کم از کم 3 ارب ڈالر سالانہ کما سکے گا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں سویا بین کا زیادہ پیداوار دینے والا بیج بھی تیار کیا جائے گا۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان میں بڑی خوشی کی بات ہے کہ چینی ادارے اپنی مہارت اور عملہ پاکستانی ماہرین کو فراہم کریں گے۔ کیونکہ یہاں کے لوگ سیچوان ایگریکلچرل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبائ کی شاندار کارکردگی کو دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ چین کے تعاون سے پاکستان کو خوراک میں خود کفالت کا ہدف حاصل کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے لڑنے میں مدد کے لیے مزید ماہرین تیار ہوں گے۔