افراط زر اور آئی ایم ایف پروگرام

Feb 07, 2023

عترت جعفری


عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میںبتایاگیا ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی کہ لہر جاری رہے گی ،اس کی وجہ کرونا وباءکے بعد کے اثرات کے ساتھ ساتھ یوکرائن کی جنگ ہے۔سپلائی کی زنجیر متاثر ہے پاکستان بھی ان عالمی اثرات سے گذر رہا ہے تاہم پاکستان اب بھی ان دس ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں جہاں خوراک کا افراط زر بہت زیادہ ہو چکا ہے مگر یہ ایسا امر نہیں جس کو جواز بنا کر مہنگائی کے طوفان کو بڑھنے دیا جائے ۔ ملک میں اس کی بہت سے دوسری وجوہات بھی ہیں جن کا اثر بہت ذیادہ ہے ۔ڈالر کا ریٹ بڑھا،روپے کی قدر کم ہوئی اس کا ا ثر بھی ہوا،بہت سے ممالک نے قلت کے خوف کی وجہ سے خوراک اور بہت سی چیزوں کو برآمد کی بند کیا جس سے پاکستان بھی متاثر ہوا کیونکہ خوراک یا اس کی تیاری کے بہت سے اجزاءدرآمد ہوتے ہیں ، اس کا بھی افراط زر پر اثر ہوا ہے ،سیلاب آیا اس سے مذید مسلہ ہوا مگر ان تمام باتوں سے قطع نظر بہت سے ایشوز ایسے ہیں جن کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر اندرونی ہیں ،جس ملک کی بندر گاہ پر9ہزار کنٹینرز پھنسے ہوئے ہوں ان میں خوراک یا دوسری اشیاء کی تیاری کا خام موجود ہے اور ان کو ریلز نہیں کیا جارہا تو اس کا تعلق تو کسی عالمی طاقت سے نہیں ہے ،نہ اس میں کوئی سازش ہے بلکہ یہ تو ہماری اپنا پیدا کیا ہوا مسلہ ہے ۔اسی طرح ڈالر ،گندم یا کوئی دوسری اجناس سمگل ہو رہی ہیں تو اس میں بھی بیرونی کوئی مداخلت یا سائفر نہیں ہے۔ڈپٹی کمشرز کا دفتر اگر موثر کام نہیں کر رہا تو اس میں کس ملک کی مداخلت ہے؟اس ملک کے غریب ان نا اہلیوں کی سزا بھگت رہے ہیں جو ان پر فرسودہ اور لاپروا نظام نے مسلط کردی ہیں ،گندم کو لے لیں ،گذشتہ فصل پر سرکاری اور نجی طور پر جتنی گندم خریدی گئی ،انھی ذخائر سے گندم جاری ہو رہی ہے درآمدی گندم کا حصہ تو بہت تھوڑا ہے تو آٹا150روپے کلو تک کیسے چلا گیا ہے ؟کوئی پیسے بنا رہا ہے اور کوئی اس گھناونے کام کے سرپرستی بھی کر رہا ہوگا ،گندم مل ملز پر نگران کیوں نہیں بٹھائے جاتے ،کتنی گندم سرکاری ریٹ پر ملی اور کتنا آٹا کہاں اور کس کو بیچا گیا ،سب کا ریکارڈ نہ بھی دیکھیں،ہر ریجن کی دس ،دس بڑے ملز کا ریکارڈ چیک کروا لیں ،سارے حقیقت سامنے آ جائے گی،سیاست اور طاقت کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا ،چینی کی برآمد پر پابندی لگی تو بہت اچھا فیصلہ تھا ،بین کو ہٹایا،ٹھیک ہے ،مگر فیصلہ تو یہ تھا کہ برآمد سے مقامی مارکیٹ میں ریٹ نہیں بڑھیں گے ،مگر چینی تو مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے ،تو کہیں گڑ بڑ ہے ، یہ دو مثالیں دیں ہیں، ملک کے اندر اس تکلیف دہ مہنگائی کی پچاس فی صد حقیقی وجوہ اور باقی کا ہمارا پنا پیدا کرد مسلہ ہے ، اور یہ لوٹ مار کو چیک نہ کرنے کی وجہ سے ہیں ،کسی کو پراو نہیں کہ مذید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر کی نیچے جا چکے ہیں ،یہ وہ ماحول ہے جس میں آج کا پاکستانی جی رہا ہے ،قیادت بھی ایسی ہے کہ نہ پاوں رکاب میں ہیں اور نہ لگام ہاتھ میں ہے ،محاذآرائی بڑھتی چلی جا رہی ہے ،یہ ماضی کی محاذ آرائی سے بہت مختلف ہے ،اور بہت ہی خطرناک رخ کی جانب بڑھ رہی ہے ،اداروں کی ساکھ داو پر لگی ہوئی ہے ،خاک بدہن ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے قدرت سنبھلنے کا آخری موقع دے چکی ہے ،اب ہر فرد اور ادارہ اپنی اصلاح کر لے ورنہ قدرت کا ایک طریقہ ہے جب وہ شروع ہو جائے تو کوئی چالاکی یا ہتھیار گارگر نہیں ہوتا اور فنا ہی انجام ہوتا ہے ،ابھی ٹرانسپرنسی کی کرپشن بارے رپورٹ آئی اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ بدعنوانی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے ،گدھوں کی چمٹے بد عنوان عناصر کا احتساب کیوں نہیں ہو پاتا ہے ،اس سوال کو جواب طاقت کی جنگ کی وجہ سے ہے ،طاقت لینے کے لئے بدعنوانوں کا راستہ دیا جاتا ہے ،خاک نشیں بجا طور پر سمجھتا ہے کہ اس وقت کے جو حالات ہیں ان میںاب خود کو بدلے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے ،معاہدہ ہو جائے گا ،اب ہر مطالبہ اس لئے ماننا پڑ رہا ہے کہ پلے کچھ بھی نہیں ہے ،چلیں اگر بہتر ہونا چاہتے ہیں اس کو ہی ابتدا بنا لیں اور معیشت سے کھیل کھیلنا بند کر دیں ،جمہوریت اچھی چیز ہے ،مگر یہ ذمہ داری بھی ہے ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت خود کو سب سے بڑی سیاسی جماعت قرار دینے والے ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس سے عدم استحکام پھیلے،اس وقت سخت شرائط کی ایک بڑی وجہ بھی یہی مہم جوئی ہے،جس نے بین الااقومی اداروں میں ملک کے بارے میں عدم اعتماد پیدا کیا ۔اب وہ وعدے سے کہیں ذیادہ 'پہلے عمل کرو اور پھر پیسے لو کا جواب ملا رہا ہے ، ،آئندہ چند ماہ مشکل ہوں گے اور اگر ملک میں ٹھہراو رہا تو معیشت کی گراوٹ ختم ہو سکتی ہے،باقی دنیا میں سست روی پیدا ہو چکی ہے جس اکا ثر پاکستان پر بھی رہے گا ،برامدات میں کوئی بڑا جمپ فوری نہیں ہو سکتا ،تاہم جس چیز کی ضرورت ہے کہ عدم استحکام پید ا کرنے کی کوشش کرنے والوں سے نبٹنا ہوگا ،ایک سال کی مدت کی مشکلات گزار لیں تو بہتری شروع ہو سکتی ہے ،اور اس کو اب آخری موقع سمجھ لیناچاہئے،دنیا کے اپنے مسائل بہت ہیں ان کو بار بار پکارنے کو فائدہ نہیں ہے ،اور وہ اب سیدھی سیدھی طرح بتا رہی ہے کو خود کو ٹھیک کریں ان کے پاس ایسی کوئی چیک بک نہیں ہے جس پر رقم لکھ کر ہاتھ میں تھمایا جا سکے۔

مزیدخبریں