سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

میں استنبول میں سلطنتِ عثمانیہ کے سب سے آخری حکمران عبدالحمید ثانی کے محل دولمہ باغچہ(Dolmabahçe Palace) کی صدر گزر گاہ جو بذاتِ خودفن تعمیر کا نادرشاہکار ہے،سے گزر کر اندر داخل ہوا تو رنگوں بھرا باغیچہ دیکھ کر جیسے میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔مختلف رنگوں کے شوخ پھولوں کے پودے تزئین و ترتیب سے لگے تھے۔ ایسے لگاکہ کسی نے سبزے کی چادر پر بہت سارے شوخ رنگ اْنڈیل دیے ہوں۔ چمکتے رنگ، دہکتے رنگ، گنگناتے رنگ، جھومتے رنگ، خوشبو لٹاتے رنگ، حد نظر تک رنگ ہی رنگ بکھرے تھے،جنھیں سورج بھی جھک کر دیکھتا تھا اور باسفورس کی ہوائیں ان سے سرگوشیاں کرتی تھیں۔ اس منظر پر تصویر کا گمان ہوتا تھا۔ میں اس گْل پوش منظرمیں کھو کر رہ گیا۔ اْن سے ایسے محوِ گفتگو ہو ا جیسے کوئی مسافر مدتوں بعد اپنوں سے آملے۔ جیسے بچھڑی ہوئی کونج ڈار سے آ ملے۔اس منظر نے مجھے مسحور کر دیا تھا۔
 یہ آج کی بات نہیں ہے بچپن سے میری عادت ہے۔ قدرتی اور فطری مناظر میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتے ہیں۔ مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ ان مناظر کے بیچ جا کر جیسے میرے دل کی کلی کھل اِٹھتی ہے۔ وہ مجھ میں اور میں ان میں سما جاتا ہوں۔ انھیں محسوس کرتا ہوں۔ہم جولیاں سمجھ کر ان سے کلام کرتا ہوں۔ ان کی سرگوشیاں سنتا ہوں۔ ان کی خوشبوؤں سے مشا مِ جاں معطر کرتا ہوں۔انھیں اپنے دامنِ دل میں سمیٹ لیتا ہوں۔ شاعر مشرق نے یہی فرمایا تھا: 
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو 
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر 
رنگ و نکہت سے عبارت یہ یادیں، یہ رعنائیِ فطرت میری کتاب دل پر نقش ہو جاتی ہے۔میں نے جن ملکوں اور جگہوں کی سیاحت کی ہے اس کے منظر آج بھی میرے اندر بسے ہیں۔ یہ منظر میری تنہائی کے ساتھی ہیں۔ جب چاہتا ہوں آنکھیں بند کرتا ہوں اور اس منظر کا حصہ بن جاتا ہوں۔
 مظاہرِ فطرت سے میری رغبت کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں نے ایسے دیہی ماحول میں آنکھ کھولی جہاں فطرت اپنے اصلی رنگ و روپ میں جلوہ گرتھی اور مشینی آلودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک کسان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے مٹی جو مادر ِفطرت ہے، سے میرا گہرا تعلق ہے۔اس کی خوشبو میری رگ و پے میں رچی ہے۔ جہاں تک فطرت کاتعلق ہے اس کی آغوش میں میری پرورش ہوئی۔ میرے بچپن کی ہر صبح کا آغاز چڑیوں کی چہکار سننے سے ہوتا تھا۔ میرے گھر کے صحن میں ادریک، شہتوت اور بیری کے درختوں میں بسیرا کرنے والے اور آ کر بیٹھنے والے پرندوں کی بولیاں آج تک میرے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ ڈھلتے سورج کی سرخی میں رنگے مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی صدا میری یادوں کا حسین حصہ ہے۔ سرِ شام گھروں کی چمنیوں سے اْٹھتا دْھواں اور صحن میں دہکتے تندور سے اْتری گرم روٹیوں کی خوشبو اور ذائقہ نصف صدی بعد بھی یاد ہے۔ 
 اس دور میں ریڈیو تھا نہ ٹی وی، بجلی تھی نہ لاؤڈ سپیکر اور نہ دیگر مشینی اور برقی آلات۔ لہذا ہمار ے رہن سہن میں فطرت اپنے اصل رنگ و رْوپ میں کار فرمانظر آتی تھی۔ گھڑیاں دیکھ کر نہیں بلکہ دن میں سورج کی نقل و حرکت اور رات تاروں کے بدلتے رْخ دیکھ کر وقت کا تعین کیا جاتا جو عموما ًدرست ہوتا۔کیونکہ جو لوگ فطرت سے قریب ہوتے ہیں فطرت ان کی ہم راز بن جاتی ہے۔۔فطرت ماں جیسی ہے اور ہم اس کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔ جب تک انسان آغوشِ فطرت میں موجود رہتا ہے اس میں سادگی، سچائی اور اخلاص بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔کیونکہ فطری طور پر انسان معصوم ہوتا ہے۔آج بھی چھٹیوں میں جب لوگ دوسرے شہروں میں جاتے ہیں تو میں جنگل میں بنے تنہا فارم ہائوس میں پناہ لیتا ہوں جہاں صرف تنہائی ہوتی ہے یا قدرت کی صناعی۔
 میری زندگی کے ابتدائی ماہ و برس اسی قدرتی ماحول میں گزرے۔جوانی میں اس فطری فضا سے دور جا کر جب فہم و ادراک نے اپنے پر کھولے تو سادگی، اخلاص اور سچائی کی شمع دْھندلانے لگی۔ تلخی حیات کے بادِ سموم سے فطری رنگت ماند پڑنے لگی۔ بہرحال دل کے کسی گوشے میں فطرت زندہ رہی۔جو کبھی کبھار توانا ہو کر ذہن و دل غالب آجاتی ہے۔ اس سے میرے دل کا گلشن تروتازہ رہتاہے خاص طور پر عمر کے اس حصے میں۔
 غم حیات اور غم روزگار نے سینکڑوں شہروں اور درجنوں ملکوں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا۔ اس دوران میں کئی جا ہ و جلال والے محلات، قابل دید عمارات اور محیر العقول عجائب گھروں سے علم و ہنر کا نور بھی سمیٹا اور سامانِ عبرت بھی جمع کیا۔ لیکن ان عظیم الشان محلات، دیدہ زیب خواب گاہوں اور قیمتی ہیرے جواہرات نے مجھے کبھی بھی اتنا متاثر نہیں کیا، جتنا صحرا میں کھلنے والا اکلوتاپھول یا صبح دم آنے والی فاختہ کی سریلی کْو کْو کرتی ہے۔ میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں اور میرے اندر کی انجمن شباب پر ہوتی ہے تو میں خود کو گاؤں کی رات میں پاتا ہوں۔جب عروسِ شب کی زلفیں سایہ فگن ہوتی ہیں۔ میں کھلے صحن میں بچھے بستر پر لیٹا خاموشی اور سناٹے سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ کہیں انسانی یا مشینی آواز سنائی نہیں دیتی۔صرف جھینگروں کی موسیقی ہوتی ہے۔ تارے روشن، بہت روشن ، بہت قریب نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جھک کر سلام کر رہے ہیں۔کوئی تارا ٹوٹتا ہے تو لگتا ہے کہ کہیں قریب ہی گرا ہے۔ اس کی چمک دیر تک قائم رہتی ہے۔
ہمارے صحن میں گھنی ٹھنڈی چھاؤں والی ادریک پر موسمِ بہار میں پھوٹنے والے جامنی رنگ کے پھول یاد ہیں۔ جن کی خوشبو سے رات بھی مہکی ہوتی تھی۔ کئی برس قبل میں نے اپنے افسانے میں بچپن کے اس ساتھی شجر '' ادریک'' کا ذکر کیا تو میرے ایک اْردو دان دوست نے تبصرہ کیا طارق مرزا اْردو میں پوٹھوہاری کا تڑکا لگاتے ہیں کیونکہ اْردو لغت میں '' ادریک '' کا لفظ نہیں ملتا۔ عرض کیا '' لغت کے مصنفین لْغت درست کر لیں۔ میرے صحن میں سایہ فگن یہ شجرمیری زندگی کی طرح میری تحریر کا بھی حصہ بنتا رہے گا۔''
اسی طرح پھلاہی کے درخت پر آنے والا زرد بْور بھی جدا خوشبوئیں بکھیرتا تھا۔ ہمارے گھر کے باہر سرسوں کے کھیتوں میں حد نظر تک بچھی زرد چادر، ہاتھوں کو زرد کرنے والی ان کی پھولوں کی نرماٹ اور ان کی بھینی بھینی خوشبو میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ گندم جو ہمیں پالتی ہے کی سنہری بالیوں کی خوشبو جیسے میری رْوح میں شامل ہے۔ 
مجھے سرما کی طویل راتیں، دیوار پر لٹکی لالٹین کی زرد روشنی، مونگ پھلی اور گڑسے لذت کام و دہن حاصل کرنا یاد ہے۔ رات گئے تک یوسف زلیخااور ہیر رانجھا کے قصے سننا۔ سرما کی رم جھم والی جھڑی شروع ہوتی تو ہفتوں جاری رہتی۔جس میں دو ہی ٹھکانے ہوتے گرم رضائی یا گرم رسوئی۔ روٹی پکانے کے بعد گرم توا اْلٹا جاتا تو اس کے پیچھے جھلملاتے تارے آج بھی ذہن و دل میں جھلملاتے ہیں۔ یادوں کی یہ کہکشاں جب دل و دماغ سے آنکھوں کی پتلیوں پر رقصاں ہونے لگتی ہے تو بے اختیار علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے:
ہاں دکھا دے ہے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

ای پیپر دی نیشن