بابو عمران قریشی سہام
ماہ رجب کی ستائیسویں رات تھی اور یہ نبوت کا بارواں سال تھاجب رات کے ایک حصہ میں حضور اکرم ؐ مسجد الحرام (مکہ معظمہ ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک تشریف لے لے گئے ۔اسراء سے مراد وہ زمینی سفر ہے جو رات کے پچھلے پہر میں ہوا۔معراج سے مراد آسمانی سفر ہے یعنی بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک عروج کرنے کو معراج کہتے ہیں۔معراج ہونے کے متعلق مورخین اور سیرت نگاروں کی اکثریت اس پر متفق ہیں کہ واقعہ معراج حضرت خدیجۃ الکبرٰی کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے ہوا تھا ۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے" وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اْسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سْننے والا اور دیکھنے والا ہے "سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 میں ارشاد خدا وندی ہے "اور جو نمائشیں ہم نے تمہیں دکھائیں اس کو لوگوں کیلئے آزمائش کیا "۔ سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں یْوں ارشاد ہے" تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے کہ تمہارا رفیق (محمد ؐ) نہ راستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش نفس سے مْنہ سے بات نکالتے ہیں۔یہ قرآن تو حکم خدا ہے جو (اْن کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔اْن کو نہایت قوت والے نے سکھایا(یعنی جبرائیل )طاقتور نے"۔پھر وہ پورے نظر آئے۔اور وہ (آسمان کے )اْونچے کنارے میں تھے پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے تو دو کمانوں کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم۔پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا۔جو کچھ اْنہوں نے دیکھا۔اْن کے دل نے جھوٹ نہ جانا۔آپ ؐ نے اپنے پروردگار کی (قدرت ) کی کتنی ہی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
حضور سرور کائناتؐ کا فرمان ہے کہ جبرائیل اور میکائیل دو فرشتے آئے میرا سینہ چاک کیا۔دل کو آب زم زم سے دھویا۔اْسے ایمان اور حکمت سے لبریز کرکے اپنے مقام پر رکھ دیا۔اس کے بعد آپؐ کا مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کا زمینی سفر جبریل امین کی معیت میں شروع ہو گیا۔راستہ میں ایک مقام پر کھجوروںکے جْھنڈ نظر آئے پوچھنے پر جبرائیل نے عرض کیا یہ آپ کا دارالحجرت ہے۔آ پ ? نے رْک کر اْس مقام پر دو نفل ادا کئے۔آگے بڑھے تو طور سینا پر جا کراْس مقام پر دو نفل ادا کئے جہاںحضرت موسیٰ کلیم اللہ بنے تھے۔تیسرے مقا م کے متعلق حضرت جبرائیل نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔آپ ? نے وہاں بھی نماز ادا کی۔اسرا کے سفر کی آخری منزل مسجد اقصیٰ تھی۔اس کے بعد آپؐ اْس سر سبز و شاداب سرزمین پر تشریف لے گئے جہاں رحمتیں اور برکتیں تھیں۔بیشتر انبیاء کرام کی جائے پیدائش تھی اور حضرت سلیمان کا بنایا ہوا ہیکل تھا۔جونہی آپ ؐپہنچے تو فرشتوں کے انبوہ کثیر نے استقبال کرتے ہوئے السلام علیکم یا رسول اللہ کہہ کر سلام پیش کیا اور یا ائول ،یا آخر، یا حاشر کے نعرے بلند کئے۔حضرت جبرائیل نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپ ؐ ائول با اعتبار شفاعت ہیں۔آخر سلسلہ انبیاء کے ہیں۔حاشر یوں کہ آپ ؐ کا اور آپؐ کی اْمت کا ائولین حشر ہو گا۔رحمت اللعالمین ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو تمام انبیاء ؐکرام آپ ؐ کے منتظر تھے۔نماز کیلئے صفیں سیدھی کی گئیں۔ہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ امامت کون کرائے گا۔جبرائیل امین نے حضور اکرم ؐکا دست مبارک پکڑ کر مصلٰی پر کھڑا کر دیا اور خود اقامت کہنے لگا۔اس طرح تمام فرشتوں اور انبیاء کرام نے آپ ؐکی اقتدا میں نماز ادا کی۔نماز کے بعد تمام انبیاء نے باری باری اپنا تعارف کرایا۔جب سب اپنا تعارف کرا چکے تو حضور اقدس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت اللعالمین بنایا۔تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔بشیر و نذیر بنایا۔آخری کتاب (قرآن مجید )مجھ پر نازل کی۔میری اْمت کو اْمت وسطیٰ بنایا۔میرے نام کو بلند فرمایا۔مجھے فاتح اور خاتم قرار دیا "۔حضرت ابراہیم نے تمام انبیاء کرام کی طرف سے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا "واقعی آپ تمام انبیاء سے افضل ہیں ۔ "نماز کے بعد جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو دو پیالے پیش کئے گئے ایک میں شراب جبکہ دوسرے پیالے میں دودھ تھا۔آپ نے دودھ کا پیالہ اْٹھا لیا اور شراب کے پیالے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔حضرت جبرائیل نے عرض کیا آپ ؐنے فطرت کو پسند کیا ورنہ آپ ؐ کی اْمت گمراہ ہو جاتی۔ اس کے بعد جبرائیل امین آپ ؐکو صخرہ پر لے آئے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف عروج کرتے ہیں۔یہاں سے آپؐ کا معراج یعنی آسمانی سفرکا آغاز ہوا۔آسمانوں پرفرشتوں نے استقبال کیا۔اسکے بعد حضرت آدم ۔حضرت یحییٰ ۔حضرت عیسیٰؑ ۔حضرت یوسف ۔حضرت ادریس ۔حضرت ہارونؑ ۔حضرت موسیٰ کلیم اللہؑ۔اور آخر میں حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔اسکے بعد آپ ؐنے بدکردار ،بد اعمال لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں جھیلتے ہوئے دیکھا۔زمین پر کعبۃ اللہ کے عین اْوپر بیت المعمور فرشتوں کا کعبہ ہے اْ سکے گرد فرشتے طواف کر رہے تھے۔اس کے بعد آپ ؐ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔یہاں بھی آپ ؐنے دودھ کا پیالہ اْٹھایا اور جبرئیل نے کہا یہ فطرت کی طرف رہنمائی ہے جو آپ ؐکی اْمت کا طرہ امتیاز ہے۔سدرۃ المنتہیٰ عالم خالق رب السمٰوات والا رض کے درمیان حد فاصل ہے۔اسکے آگے عالم ا لغیب ہے۔اسی مقام پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۃ نجم میں ہے۔اس کے بعد آپ نے جنت کا مشاہدہ کیا۔سدرہ سے کچھ آگے جاکر جبرائیل امین رْک گئے اور عرض کیا اگر اسی مقام سے بال برابر بھی آگے بڑھوں تو جل کر خاک ہو جائوں۔حضور سرور کائنات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔بارگاہ ایزدی میں سلام عرض کرنے کیلئے یہ الفاظ القا ہوئے۔ترجمہ: تمام قولی اور بدنی عبادتیں اللہ کیلئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا جواب آیا ترجمہ:سلام ہو آپ ؐ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اسکی بر کتیں۔آپ ؐ نے دوبارہ عرض کیا ترجمہ:سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر۔اس پر حضرت جبرائیل اور ملائکہ کی آواز سنائی دی۔اشھد ان لاالٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسول۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اْس کے رسول ہیں۔
سورہ بقرہ کی آخری دو آیات بغیر واسطے کے براہ راست عطا ہوئی ہیں جس میںسوائے شرک کے تمام گناہوں کے بخشنے کی بشارت دی گئی۔نماز کی تعداد 50 سے کم کرکے 5 کر دی گئی۔جن کا ثواب 50 کے برابر رکھا گیا۔نیکی کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کیا تو ایک نیکی لکھی جائیگی اگر عمل کیا تو اْس کا ثواب ملے گا۔برائی کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کیاتو نامہ اعمال صاف رہیگا۔اگر برائی کی تو صرف ایک گناہ لکھا جائیگا۔یہ تحفے حضور سرور کائنات کو معراج کے موقعے پر اْن کی وساطت سے اْن کی اْمت کو نصیب ہوئے۔واپسی پر مکہ معظمہ آتے ہوئے چند قافلوں کے اْوپر سے گزر ہوا۔ایک قافلہ مقا م روھامیں ٹھہرا تھا۔اْن کی اونٹنی گم ہوگئی تھی وہ لوگ تلاش میں گئے ہوئے تھے۔وہاں آپ ؐ نے پانی پیا۔دوسرا قافلہ مقام طویٰ میں ملا۔اْن کا اْونٹ گر پڑا۔اْس کا پائوں ٹوٹ گیا۔مقام تنعیم کے کارواں کے آگے آگے ایک بھورا اونٹ چل رہا تھا جس پر ایک حبشی سوار تھا جس نے سورج غروب ہونے تک مکہ معظمہ پہنچنا تھا۔مقام ذی طویٰ میں رحمۃ اللعالمین نے سید الملائک حضرت جبرائیلؑ سے دریافت کیاکہ کیاقریش مکہ اس واقعہ کو مان لیں گے تو جبریل امین نے عرض کیا ابو بکر صدیقؓ اس کی من و عن تصدیق کریں گے۔صبح آپ نے یہ واقعہ حرم شریف میں کفاران قریش کو سنایا۔ابو جہل کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر حضرت ابو بکر کے گھر گیا اْس کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات کا سفر والا معاملہ تسلیم نہ کریں گے اور اس طرح ایک معزز ہستی اْن سے الگ ہو جائیگی کیونکہ بیت المقدس آنے جانے کا دو ماہ کا سفر تھا۔لیکن ہوا اس کے با لکل اْلٹ۔سارا ماجرہ سْن کر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اگر حضور ؐ نے یہ فرمایا ہے تو یہ با لکل سچ ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اْن کے پاس ہر روز آسمانوں سے وحی آتی ہے چنانچہ اْن سے پوچھے بغیر میں اس کی تصدیق کرتا ہوںکہ یہ واقعہ سچا ہے۔اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق حرم شریف میں آئے جہاں ابھی تک مسجد اقصیٰ کے بارے میں سوالات کا سلسلہ جاری تھا۔حضرت سیدنا ابوبکر نے عرض کیا۔یا رسول اللہ ؐکیا یہ بات ہوئی ہے جب آپ ؐ نے تصدیق کی اور کہا کہ بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے تو صدیق اکبرؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ اِن کی تسلی کریں۔چنانچہ جب انحضرت ?ہر سوال کا جواب دیتے تو آپ ان کی تصدیق کرتے جاتے۔اس طرح اس واقعہ کو جھٹلانے والوں کے حوصلے پست ہوگئے۔
واقعہ اسراء و معراج میں جہاں اور بے شمارنکات مضمر ہیںوہاں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ حضور سرور کائناتؐ نبی قبلتین بھی ہیں اور امام قبلتین بھی اسلئے کہ آپ ؐ نے دونوں طرف رْخ کر کے نماز پڑھی۔ آپ ؐ کی ذات گرامی سے یہ دونوں مقامات ہم آغوش ہوئے۔مسجد اقصیٰ میں اپنے سے پیشتر تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فر ما کر ثابت ہوگیا کہ آپؐ اْن کے وارث ہو گئے اور آئندہ کیلئے بنی نوع انسان کے رہبر۔رہنما۔ہادی اور رسول ہو گئے ہیں۔یہ تمام حقائق در اصل پیغام محمدیؐ کی عمومیت ،دعوت اسلام کی آفاقیت اور محمد رسول اللہؐ کی ابدیت کی تصدیق کرتے ہیں۔اسی لئے دین اسلام کو خالق کائنات نے بنی نوع انسان کیلئے پسند فرمایا اور آپ ؐکو اسی مذہب کا آخری نبی بنا کر بھیجا۔
ج