آٹھ فروری! کیا قوم کی تقدیر بدلے گی؟

جس وقت میری یہ تحریر آپکی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہو گی اس سے اگلے دن آٹھ فروری کا سورج جب طلوع ہو گا تو پورے پاکستان کے ہر گلی ، ہر محلے اور ہر کوچے میں ہر سیاسی پارٹی اس بات پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہو گی کہ کس طرح وہ اپنے ووٹر کو پولنگ اسٹیشن تک لائے اور اس سے اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کروائے۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکے بعد کیا ہو گا۔ کیا اس الیکشن کے نتائج کے بعد معاشی ترقی کا پہیہ ایک دفعہ پھر گھومنے لگے گا اور اسکے نتیجے میں ملک میں بڑھتی مہنگائی کا طوفان تھم جائیگا۔ کیا اس الیکشن کے نتیجے میں کوئی ایسا شہسوار سامنے آ سکے گا جو بیروزگاری کے اس بے لگام گھوڑے کو نکیل ڈال سکے گا جس سے تنگ آکر لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کیا اس الیکشن کے اختتام پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایسا ڈائیلاگ ہو پائے گا جسکے نتیجے میں ملک میں جاری بدامنی کا سورج کسی پہرغروب ہونے کا سفر شروع کر پائے۔ بلاشبہ اس بارے میں تمام پارٹیوں نے بڑے دلفریب منشور دیے ہوئے ہیں۔ جلسوں میں نئی سوچ نئی کرن نئے جذبے نئے ولولے کے بھاشن بھی سْنائے گئے ہیں، اور تو اور دلنشین اداؤں کے ساتھ’’ آئی لو یو’’ کے رومانٹک نعرے بھی بلند ہوئے ہیں لیکن یقین جانیئے یہ سب آپکی آنکھوں کا دھوکا اور نوٹنکی کا کھیل تھا اس سے آگے کچھ نہیں ہو گا۔ ماضی کے تلخ تاریخی حقائق اور تجربات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اطمینان رکھیں اس دفعہ بھی ہمارے ملک میں کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ ہمارا مقدر اس کولہو کے بیل سے ملتا جلتا ہے جسکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اور جو دائروں کے سفر میں رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہوگا کیونکہ کو لہو کے بیل کی طرح ہمارے اس معاشرے نے بھی اپنی آنکھوں پر اندھی عقیدت اور تقلید کی پٹی باندھ رکھی ہے اور معاشرے کی تقسیم ان انتہاؤں کو چھو رہی ہے کہ لگتا ہے جیسے فلسطین اسرائیل کی جنگ عرب سرزمین پر نہیں ہمارے اس خطے میں لڑی جا رہی ہے۔ لیڈر شپ کے چناؤ کے سلسلے میں اکثریت کسی معیار کے تعین سے محروم نظر آتی ہے۔ سادہ سی بات ہے جب معاشرہ ایسی کیفیت سے دوچار ہو گا تو بلاشبہ اسکی آنکھوں کے سامنے کوئی منزل تو نہیں ہو گی بلکہ دائروں کا سفر ہی اسکا مقدر ہو گا۔
اہل دانش کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرہ میں انسان کے کردار کا اندازہ صرف مسجدوں میں اسکے سجدوں سے نہیں بلکہ عدالتوں میں اسکے انصاف، بازار میں اسکی تجارت ، دفتر میں اسکی دیانت اور لوگوں سے اسکے روئیے سے لگایا جاتا ہے۔ اب اہل علم کے اس قول کی روشنی میں درجہ بدرجہ اپنے سماج کا ذرا پوسٹ مارٹم کریں۔ راقم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا، ورلڈ انڈکس کا سہارا لے رہا ہے۔ عدل کے میدانوں میں 163 ممالک کی لسٹ میں ہمارا 147 واں نمبر، انسانی حقوق کی پاسداری میں 189 ممالک کی لسٹ میں ہمارا 154واں نمبر، کرپشن میں 179 ممالک میں 140واں نمبر اور جمہوریت کے لحاظ سے 167 ممالک میں 108 واں نمبر۔ یہ حقائق تو صرف چند شعبہ جات کی تصویر کشی کر رہے ہیں معمولاتِ زندگی کے کسی شعبہ کو دیکھ لیں آپکو ہر سْو تنزلی کا دور دورہ ہی ملے گا اور فکر انگیزی کی انتہاؤں کا یہ عالم کہ مستقبل میں بھی اس بحران میں کسی قسم کی بہتری کے کوئی آثار نہیں ملتے بلکہ قرائن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں یہ بحران قحط الرجال کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وباء ہمارا مقدر ہے یا پھر اس وباء کے ہم خود خریدار ہیں۔ اہل فکر اسکا سبب صرف اور صرف ایک چیز کو گردانتے ہیں اور وہ ہے شعور کی کمی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت انفرادی طور پر کچھ کرنے کی بجائے ہمیشہ اللہ سے امید لگائے رکھتی ہے کہ وہ کوئی ایسا لیڈر بھیجے گا جو انکے تمام مسائل پلک جھپکتے حل کر دے گا اور اسی اْمید میں معاشرہ کے ہر فرد نے اپنے ذہن اور دل میں ایک بْت تراش رکھا ہے جو ایک بیمار معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ صحت مند معاشروں کا ایک جائزہ لیں پہلے وہاں کے سماج کا ہر رکن اپنے اندر وہ صفات پیدا کرتا ہے جو وہ اپنے لیڈر میں دیکھنا چاہتا ہے لیکن ہمارے ہاں اسکا اْلٹ ہے۔ ہم اپنے اعمال کا جائزہ نہیں لیتے، اپنا احتساب نہیں کرتے۔ کاروباری افراد کہتے ہیں ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھا ہر اہلکار بددیانت ہے لیکن وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ ٹیکس بچانے کے لیئے کیا کیا حربے اختیار کرتا ہے۔ لمبی بحث کو چھوڑیں صرف ایک چھوٹی سی مثال لے لیں پوری دنیا خاص کر اس یورپ کے حوالے سے جسکی مثالیں دیتے ہم تھکتے نہیں، مائنس درجہ حرارت میں بھی لوگ اپنے کاروبار اور معمولات کا آغاز صبح نو بجے کر کے حد شام چھ بجے اسکا اختتام کر دیتے ہیں کیونکہ اْنہیں اس بات کا ادراک ہے کہ انھوں نے کس طرح اپنی انرجی بچانی ہے اور اپنے ماحول کو صاف رکھنا ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ صبح بارہ بجے اپنے کاروبار کا آغاز کرتے ہیں اور رات بارہ بجے تک دکانداری چمکاتے رہتے ہیں۔ جب کبھی اس بابت بات ہوتی ہے تو پھر اسی لیڈر شپ کو تڑی لگائی جاتی ہے جن سے زندہ اقوام بہتری کی اْمید لگاتی ہیں۔ لہٰذا عزیزان من ہمیں تو جاگتی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھنے کی عادت نہیں۔ 
جب تک بحیثیت قوم ہم اپنے انفرادی روئیے نہیں بدلیں گے تب تک الیکشنز کے نتائج ایسے ہی آتے رہینگے جیسے پچھلے چھہتر سال سے دیکھ رہے ہیں۔ پورا کالم اخلاقی پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا لیکن اگر سیاسی طور پر ان الیکشنز کے بارے میں کوئی پوچھے کہ آپکی تیسری آنکھ کیا دیکھ رہی ہے تو محاورے کی زبان میں جواب ہو گا ’’ جوتیوں میں دال‘‘۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن