بلا لینے گئے تھے پورے جہیز کا سامان دیدیا گیا۔ لطیف کھوسہ۔
کھوسہ جی اس پر تو شکر ادا کریں کہ آگ لینے گئے اور سلطنت مل گئی۔ ورنہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کے اقتدار کی دلہن بھی آپ کے سپردکی جاتی۔۔ ویسے یہ بات مذاق میں ہی لینی چاہیے۔ حقیقت میں صرف جہیز ہی نہیں سبزی اور پھل کی بھری ریڑھیاں اور فرنیچر کی دکان کے ساتھ گھریلو استعمال کا ہر سامان اس وقت پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ہاتھ میں ہے۔ کہیں کیلا، کہیں لوٹا ، کہیں بینگن ، کہیں پیالہ کہیں پلیٹ امیدوار اپنے اپنے الیکشن آفس میں سجا کر ووٹروں کو اپنا انتخابی نشان یاد کروا رہے ہیں۔ امید ہے لوگ یہ سب نشان یاد ہی رکھ لیں گے۔ خود لطیف کھوسہ کے لیے البتہ پریشانی کی بات ہو سکتی تھی کیونکہ ان کو جو نشان ملا ہے وہ یاد رکھنا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہے۔
انہیں انگریزی کا حرف ’’K ‘‘ انتخابی نشان کے طور پر الاٹ ہوا ہے۔ عام آدمی کے لیے شاید جہیز کے سامان یاد رکھنا آسان ہو گا مگر یہ ’’K ‘‘ کا لفظ یاد رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ بہتر ہوتا انہیں کنگ یا کائیٹ کا نشان دیا جاتا کم از کم لوگ بادشاہ یا پتنگ دیکھ کر یاد رکھتے کہ کس کا نشان ہے۔ اب کھوسہ جی کس کس کو K کا قاعدہ پڑھائیں گے۔ لفظ کی شناخت کرائیں گے یہ تو لگتا ہے خود لطیف کھوسہ کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ثابت ہو گا کیونکہ ووٹروں سے اور بھی بہت مغز ماری کرنا ہوتی ہیوکیل ہونے کے باوجودیہ ان کے لئے ایک کڑاامتحان ہے۔
ًً٭٭٭٭٭
قوم نے فیصلہ کرنا ہے شیر کی جگہ پنجرہ ہے۔ سراج الحق۔
یوں تو دیکھا جائے تو تمام پارٹیوں کے نشان ان کے اصل مقام پر ہی سجتے نظر آئیں گے۔ اس وقت سراج الحق لگتا ہے مسلم لیگ نون سے خاصے بدظن ہیں شاید اس لیے انہیں کوئی اورنشان یاد نہیں آیا اب کیا کریں کہ جے یو آئی اس بار نون لیگ کے ساتھ کھڑی ہے پہلے مذہبی جماعتیں الیکشن کے موقع پر اپنا الائنس بناتی تھیں اب یہ رسم بھی ختم ہو گئی ہے۔ سب رہنما اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر خوش ہیں۔ اب اگر سراج الحق کی نظر سے دیکھیں تو پھر شیر پنجرے میں کتاب بستے ہیں تیر ترکش میں عقاب چٹانوں پر لالٹین جھونپڑی میں اور ترازو پرچون کی دکانوں پر ہی نظر آئیں گے۔ اب یہ ووٹروں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کے نشان پر ٹھپہ لگانا ہے۔ کس کو کامیاب کرانا ہے۔ اس بارے میں بھی اب تردد کرنے کی کسی کو ضرورت نہیں بس کل ہی کی تو بات ہے پھر جو کچھ ڈبوں سے نکلے گا وہ بتائے گا کس کو کہاں ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی والے بھی میدان میں ہیں مگر ان کی شناخت بلا نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی بلائے ناگہانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے اْمیدِ بہار رکھ‘‘ وہ بھی فی الحال آزاد امیدواروں کی شکل میں اپنا گروپ بنا کر اقتدار کی راہ تلاش کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ باقی سب کی طرح انہیں بھی امید ہے کہ لوگ ان کو کامیاب کرائیں گے۔ یہی آس سراج الحق کو بھی ہے۔ اب آج کی رات ایک وقفہ ہے جنگ سے پہلے کہہ لیں یا طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے جس میں تمام حریف اپنی اپنی صفیں درست کر کے اپنی اپنی انتخابی سٹریٹجی ترتیب دے کر صبح میدان میں اتریں گی۔
٭٭٭٭٭
نفیسہ شاہ کو سونے کا تاج پہنانے والے کلرک کے چرچے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ نفیسہ شاہ کو تاج پہنایا گیا۔ نہ یہ ہے کہ تاج سونے کا تھا۔ بات یہ ہے جو قابلِ غور ہے اور اس پر مخالفین نے سوشل میڈیا میں آسمان سر پر ا ٹھایا ہے کہ یہ تاج نفیسہ شاہ کو ایک کلرک نے پہنایا۔ جی ہاں نفیسہ شاہ نے اس دریا دل شخص کو جب وہ وزیر تھیں اپنے محکمہ میں کلرک لگوایا تھا۔ اب اس کلرک نے یہ احسان یاد رکھا بڑی بات ہے مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اس عرصہ ملازمت میں چند سالوں کے اندر اندر یہ کلرک بادشاہ واقعی بادشاہ بن گیا اور اس نے حالیہ انتخابی مہم کے دوران اپنے علاقے میں نفیسہ شاہ کے جلسے میں انہیں سونے کا تاج پہنا دیا۔ اب خفیہ محکمہ والے ذرا اس بات کا پتہ لگائیں کہ یہ مال و زر اس کلرک بادشاہ کے پاس آیا کہاں سے اور اس نے کس طرح چند سالوں میں یہ مال بنا لیا۔ ہمارے ہاں کلرک کو ویسے ہی تو کلرک بادشاہ نہیں کہتے۔ وہ حقیقت میں بادشاہ بن کر دکھاتے ہیں۔ بڑے سے بڑا افسر یا بااثر شخص بھی اسے خوش کیے بنا اس کی ٹیبل پر پڑی فائل کھسکا نہیں سکتا۔ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ افسران کا حصہ بھی نہایت ایمانداری سے ان تک پہنچاتا ہے اور اپنا حصہ اپنی جیب میں ڈالتا ہے۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون سا مرغا موٹا ہے یعنی مالدار آسامی ہے اور اس سے کتنا مال بٹورا جا سکتا ہے۔ جبھی تو عام کلرک بھی عیش کرتے ہیں اور افسروں کو بھی کراتے ہیں جبکہ وزیروں کو تاج بھی پہناتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ کامیابی کا تاج بھی ان کے سر سجتا ہے تواس بار ان کوکونسی خلعت ملتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بدھ‘ 26رجب المرجب 1445ھ ‘ 7 فروری 2024ء
Feb 07, 2024