ڈی آئی خان کی تحصیل درابن کے تھانہ چودھوان پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے دس پولیس اہلکاروں کو شہید اور 9 کو زخمی کر دیا۔رات کو 2 اور تین بجے کے قریب پہلے سنائپر نے فائرنگ کی اس کے بعد بموں اور ہینڈ گرینیڈوں سے حملہ کیا گیا۔ دہشت گردوں نے ہر سمت سے حملہ کرتے ہوئے اندر داخل ہو کر پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے کا بھی موقع نہ دیا۔ اس حملے میں ایلیٹ فورس کے اے ایس آئی کوثر احترام سید، رفیع اللہ، حمید الحق،محمد اسلم، غلام فرید، محمد جاوید، محمد ادریس، محمد عمران اور منصور شہید ہو گئے جبکہ نو شدید زخمی ہوئے۔بموں اور ہینڈگرنیڈوں سے پورا علاقہ گونجتا رہا۔ تھانہ میں موجود نفری مختلف اضلاع سے الیکشن ڈیوٹی کیلئے آئی ہوئی تھی جسے انتخابات کے روز مختلف پولنگ سٹیشنو ں پر تعینات کیا جانا تھا۔
جب سے انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا ہے اس کے ساتھ ہی انتخابی عمل کو سبوتاڑ کرنے کے لیے کچھ اندرونی عناصر اور کچھ بیرونی قوتیں متحرک ہوگئیں۔ملک میں دہشت گردی کے خال خال واقعات ہو رہے تھے۔انتخابی شیڈول آنے کے بعد ان میں تیزی اورتسلسل آ گیا۔ مچھ میں تھانے اور بولان میں کمپلیکسز پر ہونے والے حملے بھیانک تھے۔ایسا ہی اب ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانے پر ہونے والا حملہ ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز( پیس)کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ دنوں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔انتخابی شیڈول آنے کے بعد کئی امیدواروں پر حملے ہو چکے ہیں ایک انتخابی ریلی پر حالیہ دنوں حملے میں چار افراد جان بحق ہوئے تھے۔دہشت گردی کے دیگر واقعات میں بھی کچھ امیدوار جان بحق اور کئی زخمی ہو چکے ہیں۔
انتخابات کی مخالفت کرنے والوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے اندر تو سینٹ تک میں قرارداد پیش کر کے منظور کروا لی گئی۔ایسی ہی ایک اور قرارداد بھی موجود ہے جس میں دہشت گردی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتخابات کو جب تک پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہو جاتے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک مؤخر کیا جائے۔یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے واضح اعلان کیا گیا تھا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں اور اس پر میڈیا میں شکوک و شبہات کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ یہ احکامات ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کے متقاضی ہیں جنہوں نے سینٹ میں قرارداد پیش کی اور اس کے بعد ان قراردادوں کے محرک کی طرف سے سینٹ کے چیئرمین کو خط بھی لکھا گیا کہ فوری طور پر قرارداد پر عمل کروایا جائے۔
دہشت گردی کا ایک بھیانک واقعہ جنوری کے آخری دو روز میں مچھ اور بولان کمپلیکسز میں پیش آیا جس میں چار اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے تھے۔دہشت گردوں نے تھانے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی مگر پرعزم اہلکاروں کی طرف سے جان تو دے دی گئی لیکن سرنڈر نہیں کیا۔ دو دن تک سیکیورٹی ادارے مقابلہ کرتے رہے اور بالاخر 24 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ان ہلاک ہونے والوں میں ایک ودود ساتکزئی بھی شامل تھا جس کے بارے میں اس کے لواحقین یہ پراپیگنڈا کرتے رہے تھے کہ یہ لاپتہ افراد میں شامل ہے۔اسی طرح چند روز قبل امتیاز احمد کو بھی مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا اس کا نام بھی اداروں کو بد نام کرنے کے لیے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
حالیہ دنوں سرفراز بنگلزئی جو کبھی علیحدگی پسندوں میں شامل تھا ریاست کے سامنے سرینڈر کر کے قومی دھارے میں شامل ہو چکا ہے۔ اس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے علیحدگی پسندوں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے۔بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔ بھارت ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا رہا کلبھوشن ایران ہی سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اور پکڑا گیا جبکہ افغانستان کی سرزمین تو ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ بھارت ہی کے ایما پر سرحدپر لگائی جانے باڑ کی مخالفت کی جاتی رہی۔حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں امریکہ کی کٹھ پتلی تھیں۔پاکستان نے امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر لڑا توپاکستان کو بھی دہشت گردی کا شکار ہونا پڑا۔حامد
کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف بری طرح سے دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ طالبان اقتدار میں آئے تو امید پیدا ہوئی کہ پہلے کی طرح پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔اب ٹی ٹی پی کے لوگوں کو باقاعدہ وہاں پہ پناہ گئی ہے اور امریکہ کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ انہی کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے پہلے بھی ثبوت سامنے لائے گئے اور اب بھی مزید ثبوت سامنے لائے گئے ہیں۔
بھارت کے پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے ثبوت پاکستان کی طرف سے متعدد بار اقوام متحدہ کے سامنیڈوسیئرز کی صورت میں رکھے تھے اگر اقوام کی طرف سے اس پر نوٹس لیا گیا ہوتا تو خطے سے دہشت گردی ختم نہ سہی کم ترین سطح پر ضرور آچکی ہوتی۔اقوام متحدہ کی طرف سے نوٹس نہ لینے کے باعث بھارت کو مزید شہہ ملی اور وہ بدستور پاکستان کو بدامنی سے دوچار کرنے کے لیے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے فرنٹ لائن کے دورے کے دوران گفتگو میں پاکستان میں بھارتی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا بھی ذکر کیا جو اب ہماری سرزمین پر پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانے تک پھیل چکی ہے۔ پاک فوج نے ہمیشہ بھارت کی جارحیت کا بارڈر پر منہ توڑجواب دیا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی بھارت کی مداخلت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی اپنی سی کوشش کی جس کے لیے پاک فوج نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔قوم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔پاکستان کو دہشت گردی سے دو چار رکھنا دشمن کا ہدف رہا ہے اور انتخابات کے شیڈول جاری کے ہونے کے ساتھ ہی دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آگئی۔ دشمن بدستور انتخابی عمل کو تلپٹ کرنا چاہتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد میں صرف ایک دن بچا ہے۔اس دوران بھی دشمن کی توپیں خاموش نہیں ہو رہی۔ ہمیں کسی بھی صورتحال کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ خصوصی طور پر ایجنسیوں کو الرٹ رہنا ہوگا۔پاکستان میں انفرادی دہشت گردی ہو یا اجتماعی، سہولت کاروں کے بغیر دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ اس تناظر میں جہاں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہیں دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ناگزیر ہے۔
انتخابات سے دو روز قبل پولیس تھانے میں بھیانک دہشت گردی
Feb 07, 2024