خانیوال کے این اے 145 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد خان ڈاہا ہیں اور حامد یار ہراج آمنے سامنے ہیں۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالرحمن رانا ہیں جب کہ یہاں ایک آزاد امیدوار عابد کھگہ بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں اس حلقے یعنی این اے 145 میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت میں ٹکٹوں کے حوالے سے یا پھر اپنے ووٹرز کی حمایت کے لیے اختلافات ضرور رہے، پی ٹی آئی کا ووٹرز تقسیم نظر آیا کیونکہ ایک سے زیادہ امیدوار گوکہ آزاد تھے لیکن دعوی یہی کرتے رہے۔ موجودہ سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو این اے 145 میں اصل مقابلہ محمد خان ڈاہا اور حامد یار ہراج کے مابین ہو گا۔ خانیوال شہر کے ووٹرز مسلم لیگ ن پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کو دیکھا جائے اور انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے 145 سے محمد خان ڈاہا کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ این اے 144 کبیر والا کی بات کریں تو یہاں فخر امام گروپ حاوی رہا ہے، قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر فخر امام گروپ اور خاور علی شاہ کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اس گروپ کی مضبوط سیاست اور حلقے پر گرفت کے باوجود رضا حیات ہراج نے بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس مرتبہ فخر امام خود انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے
عابد امام انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔ این اے 144 سے شہباز سیال بھی میدان میں نظر آتے ہیں۔ اس حلقے میں پارٹی ووٹ اتنا نہیں ہے، یہاں ووٹرز اپنی برادری، قبیلے سمیت پرانے تعلقات کی بنا پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ اس حلقے میں مختار شاہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں لیکن یہ بہت زیادہ مضبوط نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ اب تک کی صورت حال، ووٹرز کا رجحان اور انتخابی مہم کو دیکھا جائے تو رضا حیات ہراج سب سے نمایاں اور آگے نظر آتے ہیں۔ یہاں چونکہ آزاد امیدوار ہی آمنے سامنے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ این اے 144 سے کامیاب ہونے والا سیاست دان کس جماعت میں شامل ہوتا ہے۔ عابد امام بارے یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بھی نسبتا کمزور امیدوار ہیں اگر فخر امام انتخابات میں حصہ لے رہے ہوتے تو رضا حیات ہراج کو کامیابی کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی۔ این اے 146 میاں چنوں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اسلم بودلہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ پیر ظہور قریشی آزاد حیثیت میں انتخابی عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پیر ظہور قریشی کے ساتھ دیہی علاقوں میں لوگوں کی ان کے ساتھ جذباتی وابستگی کی وجہ سے ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ پیر ظہور قریشی کو ہمدردی کا ووٹ بھی ملنا ہے۔ جب کہ شہری علاقوں میں اسلم بودلہ کو برتری نظر آتی ہے۔ دونوں امیدوار مضبوط ہیں، مقابلہ برابر ہے اب آٹھ فروری کو کس امیدوار کے ووٹرز زیادہ دلچسپی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور امیدوار کس طاقت کے سات آٹھ فروری کو میدان میں رہتے ہیں یہی چیزیں این اے 146 کے فاتح کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی بہت کمزور ہے ان کے امیدوار کی کوئی خاص انتخابی مہم بھی نظر نہیں آئی۔ اس لیے اصل مقابلہ اسلم بودلہ اور ظہور قریشی کے مابین ہی ہونا ہے۔
این اے 147 اور یہاں سے صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر جہانیاں تین سگے بھائی افتخار نذیر ضیا الرحمن حاجی عطا الرحمن مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ تین بھائیوں کے انتخابی میدان میں ہونے کی وجہ سے سیاسی صورتحال خاصی دلچسپ ہے۔ ٹھٹھہ صادق آباد جہانیاں کے ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں سے تین سگے بھائیوں چوہدری افتخار نذیر چوہدری ضیا الرحمن حاجی عطا الرحمن الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ حلقہ این اے 147 سے چوہدری افتخار نذیر، حلقہ پی پی 209 سے چوہدری ضیا الرحمن، حلقہ پی پی 210 سے حاجی عطا الرحمن کو ن لیگ نے ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ چوہدری افتخار نذیر حاجی عطا الرحمن چوہدری کے مطابق آٹھ فروری کو جیت شیر کی ہو گی۔ رضا حیات ہراج کے حلقے میں بھی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر ان کے بھائی امیدوار ہیں۔ بعض اوقات یہ صورت حال ووٹرز کو متنفر کر دیتی ہے۔ جہانیاں کے حلقے این اے 147 افتخار نذیر کی پوزیشن اچھی ہے۔ ایاز نیازی بھی یہاں کمپین کر رہے ہیں ان پر مقامی سیاسی قیادت کو اعتراضات بھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آٹھ فروری کو کیا تبدیلی آتی ہے۔ بڑے مقابلے میں زیادہ وقت تو باقی نہیں بچا۔
آخر میں محسن نقوی کا کمال
جب تیری ْدھن میں جیا کرتے تھے
ہم بھی چپ چاپ پھرا کرتے تھے
آنکھ میں پیاس ہوا کرتی تھی
دل میں طوفان اٹھا کرتے تھے
لوگ آتے تھے غزل سننے کو
ہم تری بات کیا کرتے تھے
سچ سمجھتے تھے تیرے وعدوں کو
رات دن گھر میں رہا کرتے تھے
کسی ویرانے میں تجھ سے مل کر
دل میں کیا پھول کھلا کرتے تھے؟
گھر کی دیوار سجانے کے لئے
ہم تیرا نام لکھا کرتے تھے
وہ بھی کیا دن تھے ْبھلا کر تجھ کو
ہم تجھے یاد کیا کرتے تھے
جب تیرے درد میں دل ْدکھتا تھا
ہم تیرے حق میں دعا کرتے تھے
بجھنے لگتا تھا جو چہرہ تیرا
داغ سینے میں جلا کرتے تھے
اپنے جذبوں کی کمندوں سے تجھے
ہم بھی تسخیر کیا کرتے تھے
اپنے آنسو بھی ستاروں کی طرح
تیرے ہونٹوں پہ سجا کرتے تھے
چھیڑتا تھا غم ِ دنیا جب بھی
ہم تیرے غم سے ِگلا کرتے تھے
کل تجھے دیکھ کے یاد آیا ہے
ہم ْسخنور بھی ہوا کرتے تھے