حب الوطنی

Jan 07, 2010

پروفیسر سید اسراربخاری
وطن میں رہنا اور چیز ہے وطن سے محبت کرنا اور عموماً حب الوطنی کا جوہر عوام میں ہی پایا گیا ہے۔ حکمرانوں میں ”حب الکرسی“ عام ہے۔ بیرونی دنیا کی سیر کر کے دیکھ لیں کہ ایک بچہ بھی اپنے وطن کی سرزمین پر کیلے کا چھلکا برداشت نہیں کر سکتا اور ہم نے وطن کو غلاظت خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ قوم وطن سے بنتی ہے یہی وہ بنیادی نعرہ تھا جو پاکستان کے وجود کا باعث بنا۔ آج ہم جس ملک میں آزادی سے رہ رہے ہیں اور کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ میرے برتن کو ہاتھ مت لگاﺅ ‘وہ بابائے قوم محمد علی جناح کی دین ہے مگر ہماری حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ ایک آمر نے بدمعاشی کے ذریعے قائد کی ہمشیرہ کو جیتنے کے باوجود ہروا دیا۔ ہم اتنی بڑی زیادتی کو بھی ہضم کر گئے کیا یہی حب الوطنی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ملک میں کبھی آمریت قدم نا جما سکتی۔ یہ حدیث ضعیف ہے یا صحیح مگر اس کی صداقت میں کوئی شک نہیں کہ ”حب الوطنِ من الایمان“ (وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے) یہاں تک تو صحیح ہے کہ بھارت کے مقابلے میں آکر ہم انتہائی محب وطن ہیں لیکن اندرون وطن ہم نے وطن سے محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیا اگر ایسا ہوتا تو یہ ملک آج خوشحال و نہال ہوتا۔ اس کی سرزمین صاف ستھری ہوتی۔ ہم اس کی روش روش کو سنوارتے سجاتے مگر اب تو یہ دستور ہو گیا ہے کہ اپنے گھنر کا کوڑا دوسرے کے گھر کے سامنے پھینکو۔ حب الوطنی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وطن کی دولت کو نہ لوٹا جائے مگر آج عدلیہ کی مہربانی سے تقریباً 8000 لٹیروں کی لسٹ منظر عام پر آ چکی ہے باہر کے بنک ہماری دولت سے لبریز ہیں اگر حب الوطنی کی رمق بھی ہوتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ ہم سرکاری اداروں کو دشمن کے ادارے سمجھتے ہیں اور ان کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ حب الوطنی کے موضوع پر ہمارے اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میڈیا بھی وطن کی محبت سے سرشار نظر آتا ہے مگر معافی کے ساتھ عملاً ایسا نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ایک ذمہ دار وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پاکستان کو توڑ دیں گے اور سنیٹر حاجی عدیل نے پاکستان میں رہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اسلامی کا لفظ ترک کر دینا چاہئے۔ اب تو وطن کی محبت ترانوں تک ہی رہ گئی ہے۔ تعلیمی درسگاہوں میں محبتوں کی بڑی داستانیں چلتی ہیں مگر وطن سے محبت نا سکھائی جاتی ہے نا پڑھائی جاتی ہے بلکہ نصاب میں دشمن کی تاریخ اور اس کے ہیروز کا تعارف درج کیا جاتا ہے۔ وزیرتعلیم اس طرح کے بنائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں قرآن کے 40پارے ہیں اگر ہمیں وطن سے محبت ہوتی تو امریکہ یہاں قدم نہ رکھ سکتا اور نا ہی ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری بموں کا نشانہ بنتے۔ وطت سے محبت ایک بہت بڑا اسلحہ ہے جو اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے کام ہے۔ آج پورے پاکستان میں نظریہ پاکستان کا ایک ہی ٹرسٹ قائم ہے جو آبروئے صحافت مجید نظامی کی کوششوں سے قائم ہے۔ وہ اس پیرانہ سالی، جواں سالی میں بھی دن رات نظریہ پاکستان کا پرچار کرتے ہیں اور ان کی صحافت حب وطن کا صحیفہ ہے۔ جب تک والدین گھروں میں بچوں کو وطن اور وطن کی محبت کی اہمیت کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔ نئی نسل بھی حب الوطنی سے بے گانہ ہوتی جائے گی۔ ایک آزاد وطن اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو پاکستان کے مسلمانوں کا بھارت میں کیا حشر ہوتا؟ آج ہمارے وطن کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ بھارت جیسا کمینہ دشمن ہمیں جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے مگر ہم اس جہاد کو چھوڑ چکے ہیں جو وطن سے پیار کرنے والے کیا کرتے ہیں۔ پاکستان مضبوط ہے اس کی افواج بہادر ہیں اس کے عوام حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں یہی حب الوطنی کا بم ہم دشمن کے منہ پر ماریں گے تاکہ وہ آئندہ کبھی جنگ کی دھمکی نہ دے سکے۔
مزیدخبریں