اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + آن لائن) سپریم کورٹ نے بعض لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی نظام تباہی کے دہانے پر ہے غریب کے لئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے‘ ہر ادارے کی کارکردگی مایوس کن ہے یوں لگتا ہے جیسے ہم گسٹاپو دور میں چلے گئے ہیں جس کا جی چاہتا ہے کسی کے بھی گھر میں گھس جاتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے مگر قانون کے دائرے میں رہ کر‘ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قانون کے مطابق عملی اقدامات کئے جائیں اب کارروائی نیچے سے نہیں اوپر سے نیچے ہو گی‘ جسٹس جاوید اقبال‘ جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس ثائر علی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مصطفی اعظم‘ عتیق الرحمن اور عبدالجلیل کی گمشدگی کے متعلق مقدمہ کی سماعت کی‘ ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن نے عدالت کو بتایا کہ عتیق الرحمن کو پولیس نے آئی بی کے حوالے کیا تھا عدالت نے حکم دیا کہ آپ اس حوالے سے تحریری بیان جمع کرائیں‘ مصطفی اعظم کے متعلق ایف سی کے میجر ابراہیم نے بتایا کہ اسے حیات آباد بم دھماکے میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم 15 منٹ بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے ایف سی کے آئی جی کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا تاکہ حقائق معلوم کئے جا سکیں‘ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ہم نے بھی مصطفی اعظم کی گرفتاری سے متعلق فوٹیج دیکھی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ گرفتار شخص کا ذہنی توازن ہی درست نہیں‘ ایف سی کو کسی شخص کو حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل نہیں ‘ اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ 8 ادارے ایسے ہیں جن کو انتظامیہ معاونت کے لئے بلاتی ہے تاہم ان میں سے حراست میں رکھنے کا اختیار صرف پولیس کے پاس ہے دیگر ادارے کسی بھی گرفتار شخص کو پولیس کے حوالے کرنے کے پابند ہیں‘ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ وزارت داخلہ سے بات کریں پولیس اگر اپنا کام کرنے میں ناکام ہے تو ایف سی یا کسی دوسرے ادارے کو قانون کے مطابق اختیار دیں وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ ایف سی کو اختیارات دیئے جا رہے ہیں اگر ایسا کرنا ہے تو اس کے لئے قانون سازی کی جائے یہاں تو قانون کا دور دور تک عمل دخل نظر نہیں آتا ہر جگہ میجر یا بریگیڈئر نکل آتے ہیں انہیں لوگوں کو اٹھانے کا اختیار کس نے دیا ہے فوج کے ریٹائرڈ افسران کو ضرور بھرتی کریں مگر اہلیت بھی دیکھی جانی چاہئے‘ یہ کےسی جمہوریت ہے جس میں بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں اور ججوں کو وہ کام کرنا پڑ رہا ہے جو ایس ایچ او کرتے ہیں‘ نظام تباہی کے دہانے پر ہے آخر کسی کو تو مداخلت کرنا ہو گی جب سپریم کورٹ کچھ کرتی ہے تو آہ و بکا شروع ہو جاتی ہے نظام کی درستگی کے لئے پہلا قدم کسی کو تو اٹھانا ہو گا غریب آدمی کا جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے امن وامان کی صورتحال تباہ ہے‘ مہنگائی زوروں پر ہے‘ 70 روپے کلو چینی فروخت ہو رہی ہے ہر ادارے کی کارکردگی مایوس کن ہے اب ہر کام سپریم کورٹ نے تو نہیں کرنا ہم بھی آئین اور اصولوں و ضوابط کے پابند ہیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر کارروائی کریں گے‘ اب کارروائی نیچے سے نہیں بلکہ اوپر سے ہوگی اور یہ دیکھے بغیر ہوگی کہ کون کیا ہے اسی لئے ایف سی کے آئی جی کو طلب کیا ہے سپریم کورٹ نے کسی ادارے کے کام میں غیر ضروری مداخلت نہیں کی مگر کام اہل افراد کے سپرد کئے جائیں آج کے بعد ایف سی وہ اختیار استعمال نہیں کر سکے گی جس کی قانون اجازت نہیں دیتا دہشت گردی کے خلاف مہم ضرور جاری رکھی جائے مگر قانون کے دائرے میں رہ کر ‘ عدالت نے ایم کیو ایم کے 1996ءمیں مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے 28 افراد کے متعلق سی سی پی او کراچی سے رپورٹ طلب کر لی‘ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ الطاف بھائی تو ہر حکومت میں رہے ہیں ان افراد کو رہا کیوں نہیں کروایا‘ عدالت نے ہیومن رائٹس کمشن کی لاپتہ افراد کے حوالے سے ہی درخواست پر عاصمہ جہانگیر سے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر جامع رپورٹ پیش کریں کہ کون کب لاپتہ ہوا‘ کراچی سے اغوا کئے گئے شیر خان مینگل کے متعلق عدالت نے کارروائی یہ قرار دے کر نمٹا دی کہ جو شخص ذاتی دشمنی یا تاوان وصولی کے لئے اغواءکیا گیا وہ لاپتہ افراد کے زمرے میں نہیں آتا شیر خان مینگل کے اغوا کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے پولیس کو اس کا کام کرنے دیا جائے۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ملک میں نظام درہم برہم ہوچکا ہے یہ نظام کون سدھارے گا۔ آسمان سے فرشتے تو نہیں اتریں گے‘ ایف سی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ گرفتاریاں کرے یا تفتیش کرے اور اگر پولیس ناکام ہو گئی ہے تو اس کے اختیارات ایف سی کو دے دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں فوجی عہدیدار اور دیگر ملوث ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ جسٹس راجہ فیاض نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملک میں ظلم وتشدد کا نظام نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم گسٹاپو دور میں ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی بارش ہو رہی ہے خفیہ اداروں کو جواب دینا پڑے گا وقت آگیا ہے کہ حد بندی کر دی جائے۔
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ