اویس قریشی۔۔۔
پاکستان کا ایک مخصوص میڈیا گروپ اور چند بھارت نواز این جی اوز جو پچھلے ایک سال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی اور تعلقات کیلئے جو مہم چلائے ہوئے ہیں اسے نام نہاد امن کی آشا کا نام دیا گیا ہے اور ان دنوں اس کی باقاعدہ پہلی سالگرہ منائی جا رہی ہے یہ کیسا بھونڈا سلوگن ہے جس میں کشمیر کے ایشو کا کہیں ذکر ہی نہیں جس کی وجہ سے پچھلے 63 برسوں سے تنازعہ چلتا آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کی آشا کی خواہش رکھنے والوں کا کوئی دین مذہب اور پالیسی نہیں وہ جہاں دو ٹکوں کا بزنس دیکھتے ہیں قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اسی کے گیت گانا شروع کر دیتے ہیں۔ امن کی آشا کی خواہش رکھنے والوں کو مقبوضہ کشمیر کی اس معصوم عائشہ سے کوئی ہمدردی نہیں جسے بھارتی فوج کے درندے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر دریائے نیلم کی بے رحم لہروں کی نظر کر دیتے ہیں۔ ہم امن کی آشا کا دیپ جلا کر اندھیرے سے نظریں چرا رہے ہیں اور ہندو بنیا جو کہ ایک مکار اور چالبازوں کا ٹولہ ہے جس نے آج تک تقسیمِ ہند کو ہی قبول نہیں کیا اس سے امن کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ امن کی آشا کے گیت گانا کشمیریوں کے خون سے غداری ہے۔ اپنے ازلی وابدی دشمن بھارت سے امن کی اُمید رکھنا کسی خونخوار بھیڑیے سے کوئی خیر کی توقع رکھنے کے برابر ہے۔ امن کی آشا ہمارے دو قومی نظریے کی بھی نفی کرتا ہے، میڈیا کا ایک گروپ انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں بھارتی کلچر کو پرموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ امن کی خواہش کرنے کا یکطرفہ ڈھول بجاتا جا رہا ہے حالانکہ پوری دنیا میں مسلمہ اصول ہے کہ دوستی ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوتی ہے، دوسری طرف پچھلے ایک سال کے اعدادوشمار کے مطابق سات لاکھ بھارتی فوج کے درندے صرف حق استصواب رائے مانگنے کے مطالبے پر نہتے 307 کشمیری نوجوانوں کو جن میں طلباء کی تعداد زیادہ ہے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ہے اور فوٹیج میں مسلسل دکھایا جا رہا ہے کہ شہیدوں کے جنازوں پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے اور امن کی آشا والے ان سے امن کی اور دوستی کی بھیک مانگ رہے ہیں ان حالات میں دوستی تو درکنار تجارت بھی اس وقت تک بند ہو جانی چاہیے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کو حقِ استصواب کا حق نہیں دیتا اور غاصبانہ قبضے سے دستبردار نہیں ہو جاتا، صرف اسی صورت میں مستقل اور پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم (سیفما)جو کہ بھارت نواز کے نام سے پہنچانی جاتی ہے اسے مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے اسلام آباد میں ایک گرینڈ عشائیہ دیا جسے ملک کے سنجیدہ حلقوں سمیت مذہبی جماعتوں نے بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں سے تقریباً 80 کلو میٹر دور مقبوضہ کشمیر میں ماؤں، بہنوں کی عظمتوں کو لوٹا جا رہا ہے اور نوجوان کشمیری طالب علموں کو چن چن کر گولیاں ماری جا رہی ہیں اسلام آباد میں میاں نوازشریف روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی این جی اوز کے اعزاز میں دعوت کر رہے ہیں جس میں بھارتی عہدیدار بھی شریک ہیں۔ یہ عمل کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ 20 فروری 1999ء کو دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لئے واجپائی کے دورہ پاکستان کے دوران اعلان لاہور بھی ہوا مگر وہ بھی لاحاصل رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں دن بدن مظالم بڑھ رہے ہیں ’’اورکچھ مہربان‘‘ امن کی آشا کی کشکول لئے مسلسل امن کی بھیک مانگ رہے ہے۔
پاکستان کا ایک مخصوص میڈیا گروپ اور چند بھارت نواز این جی اوز جو پچھلے ایک سال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی اور تعلقات کیلئے جو مہم چلائے ہوئے ہیں اسے نام نہاد امن کی آشا کا نام دیا گیا ہے اور ان دنوں اس کی باقاعدہ پہلی سالگرہ منائی جا رہی ہے یہ کیسا بھونڈا سلوگن ہے جس میں کشمیر کے ایشو کا کہیں ذکر ہی نہیں جس کی وجہ سے پچھلے 63 برسوں سے تنازعہ چلتا آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کی آشا کی خواہش رکھنے والوں کا کوئی دین مذہب اور پالیسی نہیں وہ جہاں دو ٹکوں کا بزنس دیکھتے ہیں قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اسی کے گیت گانا شروع کر دیتے ہیں۔ امن کی آشا کی خواہش رکھنے والوں کو مقبوضہ کشمیر کی اس معصوم عائشہ سے کوئی ہمدردی نہیں جسے بھارتی فوج کے درندے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر دریائے نیلم کی بے رحم لہروں کی نظر کر دیتے ہیں۔ ہم امن کی آشا کا دیپ جلا کر اندھیرے سے نظریں چرا رہے ہیں اور ہندو بنیا جو کہ ایک مکار اور چالبازوں کا ٹولہ ہے جس نے آج تک تقسیمِ ہند کو ہی قبول نہیں کیا اس سے امن کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ امن کی آشا کے گیت گانا کشمیریوں کے خون سے غداری ہے۔ اپنے ازلی وابدی دشمن بھارت سے امن کی اُمید رکھنا کسی خونخوار بھیڑیے سے کوئی خیر کی توقع رکھنے کے برابر ہے۔ امن کی آشا ہمارے دو قومی نظریے کی بھی نفی کرتا ہے، میڈیا کا ایک گروپ انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں بھارتی کلچر کو پرموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ امن کی خواہش کرنے کا یکطرفہ ڈھول بجاتا جا رہا ہے حالانکہ پوری دنیا میں مسلمہ اصول ہے کہ دوستی ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوتی ہے، دوسری طرف پچھلے ایک سال کے اعدادوشمار کے مطابق سات لاکھ بھارتی فوج کے درندے صرف حق استصواب رائے مانگنے کے مطالبے پر نہتے 307 کشمیری نوجوانوں کو جن میں طلباء کی تعداد زیادہ ہے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ہے اور فوٹیج میں مسلسل دکھایا جا رہا ہے کہ شہیدوں کے جنازوں پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے اور امن کی آشا والے ان سے امن کی اور دوستی کی بھیک مانگ رہے ہیں ان حالات میں دوستی تو درکنار تجارت بھی اس وقت تک بند ہو جانی چاہیے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کو حقِ استصواب کا حق نہیں دیتا اور غاصبانہ قبضے سے دستبردار نہیں ہو جاتا، صرف اسی صورت میں مستقل اور پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم (سیفما)جو کہ بھارت نواز کے نام سے پہنچانی جاتی ہے اسے مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے اسلام آباد میں ایک گرینڈ عشائیہ دیا جسے ملک کے سنجیدہ حلقوں سمیت مذہبی جماعتوں نے بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں سے تقریباً 80 کلو میٹر دور مقبوضہ کشمیر میں ماؤں، بہنوں کی عظمتوں کو لوٹا جا رہا ہے اور نوجوان کشمیری طالب علموں کو چن چن کر گولیاں ماری جا رہی ہیں اسلام آباد میں میاں نوازشریف روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی این جی اوز کے اعزاز میں دعوت کر رہے ہیں جس میں بھارتی عہدیدار بھی شریک ہیں۔ یہ عمل کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ 20 فروری 1999ء کو دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لئے واجپائی کے دورہ پاکستان کے دوران اعلان لاہور بھی ہوا مگر وہ بھی لاحاصل رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں دن بدن مظالم بڑھ رہے ہیں ’’اورکچھ مہربان‘‘ امن کی آشا کی کشکول لئے مسلسل امن کی بھیک مانگ رہے ہے۔