اصغر بٹ
ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ ثمینہ خالد پرویز نے اس ماہ ربیع الاوّل کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دے کر نشر کرنے کی ہر ریڈیو سٹیشن کو ہدایات جاری کردیں ہیں۔ جن پر یکم ربیع الاول سے عمل شروع ہوچکا ہے اور امید ہے یہ سلسلہ پورا ماہِ مبارک تک جاری و ساری رہے گا۔ اس ماہ میں حضور پرنور آنکھوں اور دل کے سرور، نبی رحمت سرکار دوعالم نور مجسم کی اسی ماہ مبارک دنیا میں تشریف آوری ہوئی اور بہاریں مسکرائیں، زمین و آسماں پر درود و سلام کی محفلیں سجائی اورخوشیاں منائی گئیں، خانہ کعبہ کے بت سرنگوں ہوگئے اور ہمارے لئے بھی اس دن ہر صوبے ، شہر اور کوچہ و بازار میں کمی والے کی شمع کے پروانوں نے مسجدوں، مکانوں کو چراغوں اور لائٹوں کی روشنیوں سے راتوں کو بُقہ نور بنایا اور سجا دیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے لاہور کے نورجہاں آڈیٹوریم میں گزشتہ روز 1435ھ کے صوبائی مقابلے برائے نعت منعقد ہوئے۔ ان مقابلوں کا اہتمام محکمہ اوقاف، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان مل کر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی پنجاب کے مختلف اضلاع سے 39 نوجوان بچے اور بچیوں نے شرکت کی۔ یہ تمام شرکاءاپنے اپنے شہروں سے مقابلے جیت کر ریڈیو پاکستان آئے تھے۔ صوبائی مقابلہ نعت خوانی جیت کر آنے والوں کو اب یہاں سے آئندہ چند روز میں اسلام آباد بخاری آڈیٹوریم ریڈیو پاکستان میں قومی مقابلہ نعت خوانی کے لئے جانا ہے اور یہ پروگرام P.T.V اور ریڈیو پاکستان مل کر قومی رابطے پر نشر کریں گے۔ اسی طرح ریڈیو کا ہر سٹیشن اپنے اپنے صوبوں اور علاقائی زبانوں میں درود و سلام کی محفلیں سجائیں گے۔ پھر پاکستان کی ہر جامعہ مساجد سے ربیع الاول کی تقریبات کی ریڈیو رپورٹیں روزانہ نشر کی جاتی رہیں گی۔ 12 ربیع الاول کو نکلنے والے جلسوں کے پروگرام دیگر الیکٹرونک میڈیا سے بھی براہ راست دیکھائے اور سنائے جائیں گے۔ ریڈیو پاکستان کی ڈی جی ثمینہ خالد پرویز نے ریڈیو ڈراموں کا معیار مزید بہتر بنانے کے لئے ریڈیو کے سٹیشن ڈائریکٹروں کو یہ پروانہ بھی روانہ کردیا ہے کہ مستند تخلیق کاروں کی خدمات حاصل کی جائیں اور ریڈیو ڈراموں اور فیچروں کو عوامی امنگوں کے مطابق تیار کرکے نشر کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی والوں نے ڈرامہ رائٹرز کو اتنے معاوضے دینے شروع کردیئے ہیں جو ریڈیو پاکستان بڑی مشکل سے دے سکے گا۔ صدا کاروں اور گلوکاروں کا بھی یہی حال ہے۔ ریڈیو میں اب نہ تو شوکت تھانوی قاضی لکھ کر اور بن کر سکہ جمانے والے نظر آتے ہیں، نہ ہی اشفاق احمد جیسا تلقین ہے نہ ہی نصیر انور جیسا ندائے حق لکھ کر مہاشے جی کی دُم دبا کر بھگانے والے نذر آرہا ہے، نہ نظام دین اور میرے جیسا پنجابی اکھان، پنجابی شعر اور مشاہدے کی مثالیں دے کر 1965ءکی جنگ میں محاذوں پر جاکر فوجی بھائیوں کے حوصلے بلند کرنے والا سامنے آیا، سلطان کھوسٹ چاچا خیرو کا کردار کرنے الٹے پلٹے بننے ماسی مہرو بن کے لوگوں میں وطن سے محبت بھائی چارے کا درس دینے والا کوئی نہ ہے۔ باتیں تو بہت سارے لوگ کرتے ہیں لیکن ہوچکے حال غزل خوانی کے دن راگنی بے وقت کی اب کیا گائیں۔ بہرحال ادارے تو چلتے ہی رہتے ہیں اور جانے والے مستند لوگوں کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور کچھ لوگ جوباقی ہیں، ان کو پرائیویٹ والے نہیں چھوڑتے۔ پھر ملکی حالات ایسے دگرگوں ہیں کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرنا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت اس وقت ہائی پاور ٹرانسمیٹر لگانے کی ہے، اگر لاہور ریڈیو کے لئے ایک ہزار کلوواٹ کا ٹرانسمیٹر لگا دیا جائے تو اس مقابلے کی فضا میں حکومت کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ جنگ اور امن میں ریڈیو پاکستان کی کارکردگی ہمیشہ لاجواب رہی ہے لیکن حکومت کی توجہ اس طرف دلانے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر معزز ارکان کی چونچوں کی تُوتکار سے دل بہلاتے رہیے۔ ریڈیو لاہور سٹیشن کے ڈائریکٹر سید رضا کاظمی اچھے کمنٹیٹر بھی ہیں(شعر و نغمہ کے کن رسیا بھی لیکن بجٹ کی مجبوریاں بھی) اس کے باوجود وہ محدود وسائل مےں پروگراموں کی بہتری کے لئے کمربستہ ہیں۔