ص ب
نواحی گاﺅں پنڈی چیری میں بااثر چودھری کی حویلی خستہ دیوار کے نیچے دب کر جاں بحق ہونے والے 6 معصوم بچوں کے ورثا کو گاﺅں کے چودھریوں نے بذریعہ ایس ایچ او ہر مرنے والے بچے کی موت کے عوض 16666 دے کر ”تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کرنے اور کوائی قانونی کارروائی نہ کرانے کے بیانات لے لئے‘ پولیس نے متوفی بچوں کا پوسٹمارٹم کرانا تو ایک طرف ‘ سرسری ملاحظہ کرانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی ۔ اس طرح ایک لاکھ روپے میں 6 معصوم پھول اور کلیاں رزق خاک ہو گئیں۔ مقامی شہری حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے سانحہ میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی موت کا از خود نوٹس لینے اور وزیراعلیٰ سے وقوعہ کی شفاف انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ پنجاب کے لاہور ڈویژن کے ضلع نکانہ صاحب میں چودھراہٹ سسٹم کتنا مضبوط ہے۔ غریب اور گاﺅں کے ”کمیں“ لوگ کن حالات میں زندگی گزار ہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگا لیں کہ 5 روز قبل تھانہ سید والا کے گاﺅں پنڈی چیری میں ایک بڑی قوم کے بااثر شخص کی حویلی کی خستہ دیوار کے نیچے دب کر لقمہ اجل بننے والے دو بچیوں سمیت 4 سے 11 سال کی عمر کے 6 معصوم بچے انتہائی غریب خاندانوں کے چشم و چراغ تھے۔ مرنے والوں میں غریب محنت کش محمد نواز کے دو بیٹے ایک بھتیجا ایک مہمان آیا ہوا بھانجا اور ایک بھانجی شامل ہیں جبکہ ایک بچہ دوسرے محنت کش محمد اسلم کا لخت جگر تھا۔ بچوں کی ہلاکت کی اطلاع ملنے پر ایس ایچ او تھانہ سید والا ملک طارق جمیل اپنی نفریکے ہمراہ متعلقہ گاﺅں میں پہنچے اور ایک بڑے زمیندار کے ڈیرے پر رونق افروز ہوگئے متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد بدقسمت خاندانوں کے سربراہوں نے محمد نواز وغیرہ کو ڈیرے پر طلب کر لیا اور بدقسمت خاندانوں کے سربراہان کو بذریعہ ایس ایچ و سید والا مجموعی طور پر ایک لاکھ روپیہ کفن دفن کے نام پر دے کر حکم دیا گیا کہ تمہارے بچوں کی موت اسی طرح لکھی ہوئی تھی۔ اب پولیس کو بیان دے دو کہ تم کسی شخص کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرانا چاہتے۔ غریب ورثا نے اپنے سرپنچوں کے حکم کے عین مطابق پولیس کو بیان دے دئیے۔ اس طرح سانحہ پنڈی چیری میں بااثر زمیندار کی غفلت اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھنے والے غریب خاندانوں کا چشم و چراغ اپنے والدین کو فی کس 16666 روپے دلا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبروں کو اندھیرے میں گم ہو گئے۔ اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کے والدین اور دیگر عزیزوں کو تو آخر قرار آ ہی جائے گا۔ لیکن یہ سانحہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا جو اس ملک کی حکومت ‘ پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کے دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مقامی پولیس سمیت کسی تفتیشی ایجنسی نے ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کہ بڑے زمیندار کی متعلقہ حویلی کی سرکاری سولنگ اکھاڑ کر اس کے اینٹوں سے تعمیر کردہ‘ دیوار میں خوفناک دراڑیں پر چکی تھیں اور یہ بیرونی جانب خوفناک حد تک جھکتی جاری تھی تو اسے انسانی المیہ جنم لینے سے پہلے گرا کیوں نہیں دیا گیا۔؟ ان تمام معاملات کو کھوجا سکتا تھا۔ اگر مرنے والے بچوں میں سے کوئی بچہ کسی بڑے چودھری یا سرپنچ کا ہوتا۔ یہاں تو مرنے والے تمام معصوموں کا تعلق خط غربت سے نیچے سسکنے والی مخلوق سے تھا۔ اگر ان کی زندگی کی قیمت 16666 روپے چند پیسے بھی پڑ گئی ہے۔ تو غنیمت جانئے۔
دیوار تلے دب کر مرنیوالے چھ بچوں کے خون کا معاوضہ صرف ایک لاکھ روپے
دیوار تلے دب کر مرنیوالے چھ بچوں کے خون کا معاوضہ صرف ایک لاکھ روپے
Jan 07, 2014