درد ہو دل میں تو دوا کیجئے

درد ہو دل میں تو دوا کیجئے

Jan 07, 2014

عارفہ صبح خان

’’چوروں کی ساتھی نہیں بننا چاہتی‘‘ یہ بات میں نے نہیں، بیگم نسیم ولی خان نے کہی ہے۔ یہ کافی دلچسپ، تحیر خیز اور مسرت آمیز بات ہے کہ بیگم نسیم ولی خان 75 برس کی عمر میں اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ چوروں کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ہے۔ ویسے بھی ’’چوروں کی ساتھی‘‘ کسی جاسوسی ناول یا دو نمبر فلم کا ٹائٹل تو بن سکتا ہے مگر ایک سنجیدہ، بردبار سیاسی خاتون کی شخصیت پر نہیں جچ سکتا۔ اے این پی کے ساتھ دیرینہ وابستگی اور خاندانی پارٹی سے تعلق آخری وقت میں توڑنا اچنبھے سے کم نہیں ہے۔ بیگم نسیم ولی خان نے نئی جماعت بنانے کا اعلان بھی کر ڈالا ہے۔ گویا اب وہ آخری اننگ نئی جماعت کے ساتھ کھیلیں گی بشرطیکہ آئوٹ نہ ہوئیں۔ آج کل زرداری نے بھی چپ کا روزہ توڑ دیا ہے اور ذرا دیکھئے، کہتے کیا ہیں کہ ’’جی ڈکٹیٹروں کو کرتوتوں کا حساب دینا ہو گا، عوام انہیں قانون سے بھاگنے نہیں دیں گے‘‘ اب میں ہنسوں کہ روئوں… جو کچھ جناب زرداری اپنے پانچ سالہ دور میں کرکے گئے ہیں اگر اس کا حساب کتاب شروع ہوا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ہمارے سیاستدان ڈکٹیٹروں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن یہ سارے کے سارے اپنی ذات میں ’’ڈکٹیٹر‘‘ ہوتے ہیں۔  زرداری صاحب بہت زیادہ میاں نواز شریف پر تکیہ کر رہے ہیں۔ کل کو یہی آصف زرداری جیل کی اوٹ سے گا رہے ہوں…ع
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
یہ پنگ پانگ جو آج کل آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان چل رہی ہے، جلد ہی اس ’’بھائی چارہ‘‘ فلم کا ڈراپ سین سامنے آنے والا ہے کیونکہ اس میں ق لیگ کی آہیں اور بددعائیں بھی رنگ لانے والی ہیں۔ دونوں منہ بولے بھائیوں نے مل کر ق لیگ کے ساتھ جو ہاتھ کیا ہے، وہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ن لیگ بھی 1999ء سے سیاسی اداکاری میں ہالی ووڈ کے منجھے دھلے اداکاروں کو مات دے چکی ہے۔ کئی آسکر ایوارڈ کا حق ن لیگ کو جاتا ہے جو ق لیگ کو زرداری کے قدموں میں بیٹھنے اور قاتلوں کی پارٹی سے گلے لگنے کے طعنے دیتے رہی۔ جس کی وجہ سے پرویز الٰہی اپنی نائب وزارت عظمیٰ کو بھی انجوائے نہ کر سکے اور محض اشتہاری نائب وزیراعظم بن کر رہ گئے۔ انہوں نے اس عہدے سے نہ تو فائدہ اٹھایا اور نہ ہی اسے پرکشش اور طاقتور بنایا۔ یہ عہدہ پرویز الٰہی سے شروع ہو کر پرویز الٰہی پر ہی ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست تو چل ہی ’’ستائش باہمی‘‘ کے اصول پر رہی ہے۔ کچھ عرصہ سے ’’ادب‘ کو بھی ستائش باہمی کے چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے۔ خصوصاً جب سے کچھ ادیبوں شاعروں نے کالم نگاری کے ذریعہ حکمرانوں کا قرب حاصل کر کے فن چاپلوسی میں کمال پایا ہے تب سے انکے معاشی حالات میں ایسا تغیر آیا ہے کہ دیکھنے والا دانتوں تلے انگلی نہیں دباتا بلکہ پورا ہاتھ چباتا جاتا ہے۔ اس فنکاری اور قصیدہ خوانی کی وجہ سے آج کئی ادیب شاعر اور Socalled  دانشور ایسے ایسے عہدوں پر براجمان ہیں جو ان کے شایان شان کو چھوڑئیے‘ عہدوں کے شان کے خلاف ضرور ہیں اس سے ایک مخصوص طبقہ فیض یاب ہو رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں کابینہ کے اجلاس میں پندرہ پسندیدہ اینکر پرسنز اور صحافیوں کو بلا کر حکومت نے میڈیا میں اپنے لئے ناپسندیدگی کی دعوت دی۔ پسندیدہ صحافی اور اینکر کی صرف ایک ہی تعریف ہوتی ہے کہ وہ ’’حکومت وقت‘‘ کے مفادات کو کیسے پروان چڑھاتے ہیں اور ان کے لب و لہجہ اور اور قلم سے کس طرح ’’حکمرانوں‘‘ کی چاپلوسی ہوتی ہے خوشامدی الفاظ کو جتنا بھی ٹوسٹ Twist کیا جائے‘ ان سے خوشامد کے بھبھکے اٹھتے سب کو دکھائی دیتے ہیں۔ شیری رحمان نے اپنے ایک انٹرویو میں بڑی کام کی بات کی ہے کہ جب ہم صحافت کرتے تھے تو حکمرانوں سے ایک فاصلہ رکھتے تھے۔
اور آج کل کے صحافی اور اینکر حکومتوں کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے نیوٹرل نہیں رہتے۔ شیری رحمان نے کہا کہ بعض صحافی اور اینکر ریٹنگ کے لئے تکرار اور جھگڑے کرتے ہیں لیکن اچھا مباحثہ کرنے والوں کو یہ کہہ کر سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے ان کے شوز کی ریٹنگ نہیں ہے۔‘‘
تکرار یا جھگڑا بدتہذیبی اور جہالت کی عصمت ہے۔ اس سے پاکستانی سیاست صحافت اور ثقافت کا بدترین امیج باہر جا رہا ہے۔ اسی لئے آج پاکستانی قوم کو جاہل اور جھگڑالو سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب میں وی وی آئی پیز (V.V.I.Ps)کی طرف سے ہیلی کاپٹر کا بے دریغ استعمال کر کے 2کروڑ روپے کا پٹرول جھونک دیا گیا۔ وی وی آئی پی کلچر دراصل احساس کمتری کے ماروں کا کلچر ہے جن کی اپنی شخصیت بھونڈی اور ادھوری ہوتی ہے۔ قوم افلاس سے مر رہی ہے۔ روزانہ دو درجن افراد بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خود کشی کر رہے ہیں اور یہ لوگ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر مہنگائی کر کے قومی خزانہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ شاید اسی لئے اسحاق ڈار نے یہ کہا ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں۔ یہ بھی فرما گئے ہیں کہ 206ارب روپے کے نوٹ چھاپے ہیں نیز آئی ایم ایف سے قرضہ ملک کی عزت بچانے کیلئے لیا ہے۔ خدا کی پناہ! اتنا جھوٹ۔ آئی ایم ایف نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے اکتوبر سے بجلی 35فیصد مہنگی کی۔ یہ اضافہ معاہدے سے کہیں زیادہ ہے جو غلط ہے۔ دوسری طرف مشرف کے معاملات ہیں اور لگتا ہے کہ مشرف کیس سے سیاسی صورتحال بدلنے والی ہے۔ طالبان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی گیم تو ختم ہو چکی لیکن وہ اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور مولانا سمیع الحق کو چاروں شانے چت کرنا چاہتے ہیں۔ الطاف حسین نے فضل الرحمن سے بڑھ کر تشویشناک باتیں کی ہیں۔ ایک بلوچستان کو دوسرا سندھ کو الگ کرنا چاہتا ہے۔اسے کہتے ہیں‘ جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا۔

مزیدخبریں