اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + نیٹ نیوز / بی بی سی + ایجنسیاں) خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعت کے دوران بیماری کے باعث سابق صدر پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کئے۔ عدالت نے پرویز مشرف کو ایک روز کے لئے (پیر کو) حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے آج ساڑھے گیارہ بجے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سپرنٹنڈنٹ سے ملزم پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ہے۔ دوران سماعت خصوصی عدالت نے کہا کہ سابق صدر (پرویز مشرف) بیمار ہیں اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا درست نہیں ہو گا۔ خصوصی عدالت نے عدم حاضری پر پرویز مشرف کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ وہ پرویز مشرف کا میڈیکل سرٹیفکیٹ آئندہ سماعت پر پیش کریں۔ عدالت نے وفاقی پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی جانب سے مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ پراسیکیوٹر یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ پرویز مشرف جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے۔ مشرف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ غداری کے اس مقدمہ پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انہوں نے مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اس پوائنٹ پر اپنے دلائل مکمل کر لئے۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے مدعا علیہ کے تین نکات، خصوصی عدالت کا قیام اس کا دائرہ اختیار، ججز کی تعیناتی اور اکرم شیخ کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی سے متعلق دلائل دئیے۔ فریقین وکلا کے درمیان ایک بار پھر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس فیصل عرب نے مشرف کے وکیل انور منصور سے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کہاں ہیں، وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے؟ واضح تحریری بیان عدالت میں پیش کیا جائے، جس پر انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ مجھے معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ اس موقع پر شرف الدین پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر دل کی تکلیف کے باعث اے ایف آئی سی راولپنڈی میں زیر علاج ہیں جس کے باعث وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ اکرم شیخ نے بنچ کی تشکیل، ججز اور پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق دلائل میں کہا کہ مشرف کے وکلا کی اس حوالے سے ہائیکورٹ میں درخواستیں جو خارج ہو چکی ہیں اب ان فیصلوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ انور منصور نے کہا کہ اکرم شیخ ٹی وی پر آ کر بیان دیتے ہیں اور حکومتی شخصیات کے ساتھ سفر کرتے ہیں ایسے شخص کو مقدمے کا پراسیکیوٹر نہیں ہونا چاہئے، میں اس حوالے سے بھی درخواست کروں گا۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ اکرم شیخ وفاق کے وکیل نہیں بلکہ کسی کے ذاتی وکیل لگے ہیں۔ عدالت میں موجود ہو کر بھی نوازشریف کو مخاطب کر رہے ہوتے ہیں۔ انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کا دائرہ اختیار محدود ہے۔ خصوصی عدالت غداری کے مقدمہ کی سماعت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے اس پوائنٹ پر اپنے دلائل مکمل کر لئے تو اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 199 اور اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہو گا کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے قیام کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف پرویز مشرف کے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے جو زیر التوا ہے۔ اکرم شیخ نے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے مختلف ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کہیں یہ نہیں لکھا کہ خصوصی عدالت اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتی۔ اکرم شیخ نے خصوصی عدالت کے قیام سے متعلق 1976ء کی کی گئی قانون سازی اور کریمنل پروسیجر ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت مقدمہ کی اس ایکٹ کے تحت سماعت کرنے کی مجاز ہے جب قانون سازی کی گئی تو اس وقت ملک میں تین ہائیکورٹس تھیں بعدازاں چوتھی ہائیکورٹ اور 18ویں ترمیم کے بعد پانچویں ہائیکورٹ (اسلام آباد ہائیکورٹ) کا قیام عمل میں لایا گیا اس لئے خصوصی عدالت میں تمام ہائیکورٹ کے ججز کو نمائندگی دینے کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے مگر اس قانون کے مطابق صرف تین ججز ہی خصوصی عدالت کے جج مقرر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہے۔ سابق چیف جسٹس نے 5 متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو خط لکھا اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے بھیجے گئے ناموں میں سے تین ججز کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر کیا گیا۔ انٹراکورٹ کی ان اپیلوں کا فیصلہ آنا بھی ضروری ہے۔ خصوصی عدالت آرٹیکل 121 سے 123 کے تحت ایسے مقدمات کی سماعت کر سکتی ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ پرویز مشرف بیمار نہیں بلکہ وہ عسکری ہسپتال میں آرمی سکیورٹی کے زیر سایہ پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جان بوجھ کر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔ عدالت ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرے۔ جس پر احمد رضا قصوری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اکرم شیخ بے جا الزام لگا رہے ہیں، آرمی کے باوقار ادارے کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔ وہ یہ معاملہ میڈیا میں آٹھائیں گے، ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ بیمار ہیں، اس وقت زیر علاج ہیں۔ اس موقع پر فریقین کے وکلا کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ جس پر جسٹس فیصل عرب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلیاں نہیں جہاں آپ ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کریں گے۔ عدالت کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے۔ مشرف کے وکلا نے اس موقع پر مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مؤکل شدید علیل ہے لہٰذا انہیں عدالتی حاضری سے استثنیٰ دیا جائے جس پر عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ایک روز کا مزید استثنیٰ دیتے ہوئے مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ چونکہ پرویز مشرف نے اس مقدمے میں وکلا کی خدمات بھی حاصل کی ہیں اور انہوں نے اپنی رہائش گاہ بھی تبدیل نہیں کی اس لئے ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں کئے جا رہے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ واضح کیا ہے کہ ملزم کے وکلا کی جانب سے پرویز مشرف کی صحت سے متعلق کوئی رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔ چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت محض بیماری کے عنصر کو لے کر اس مقدمے کی کارروائی کو طوالت نہیں دے سکتی نہ ہی عدالت پر بیماری کی وجہ سے ملزم کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے پر کوئی ممانعت ہے۔ اس سے پہلے بھی عدالت نے پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہونے سے متعلق دو مرتبہ سمن جاری کئے تھے لیکن انہوں نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا اور عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ خصوصی عدالت کے اختیارات اور قانون کے تحت کسی بھی ملزم کو عدالت میں حاضری سے استثنٰی نہیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ وہ سابق فوجی سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) مرزا اسلم بیگ کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوتے رہے ہیں، ان کے موکل نے بھی عدالت میں اپنی حاضری کو یقینی بنایا تھا جبکہ اس مقدمے میں پرویز مشرف عدالتی احکامات کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے۔ شخصیات کو نہیں بلکہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دو جنوری کو پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اے ایف آئی سی میں جا کر چھپ گئے جس پر ملزم کے وکلا نے اعتراض کیا کہ اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو عدالت ہسپتال میں کسی ذمہ دار شخص کو بھجوائے جو انہیں فرد جرم پڑھ کر سنائے۔ مشرف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ جس طرح توہین عدالت کے مقدمے میں ملزم کو پہلے گرفتار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح غداری کے مقدمے میں بھی عدالت ملزم کی گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں کر سکتی۔ غداری سے متعلق قانون کے طریقہ کار میں اس کی وضاحت نہیں ہے ان کے مؤکل کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ وکیلِ صفائی نے کہا کہ غداری کا مقدمہ آئینی مقدمہ ہے جبکہ گرفتاری کے احکامات فوجداری مقدمے میں صادر کئے جاتے ہیں۔ خصوصی عدالت ان کے موکل کی گرفتاری سے متعلق کوئی حکم صادر نہیں کر سکتی۔
اسلام آباد (ثناء نیوز) عسکری ادارہ امراض قلب میں زیر علاج سابق صدر پرویز مشرف کے پانچویں روز بھی مزید ٹیسٹ کئے گئے۔ سابق صدر نے سگار پینے کی خواہش ظاہر کی تاہم ڈاکٹروں نے انہیں اجازت نہیں دی۔ لیڈی ڈیانا فیم ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر حسنات پاکستان پہنچ گئے ہیں اور وہ علاج کرنیوالی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ ان کی مشاورت کے بعد سابق صدر کی حتمی میڈیکل رپورٹ تیار کی جائے گی اور بیرون ملک علاج کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پرویز مشرف راولپنڈی کے عسکری ادارہ امراض قلب کے سی سی یو وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق مشرف کے شوگر اور کولیسٹرول کے مزید ٹیسٹ کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق ان کا کولیسٹرول نارمل سے تھوڑا زیادہ ہے۔ سابق صدر کا بلڈ پریشر بھی چیک کیا گیا۔ سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو ابھی کمرے میں منتقل نہیں کیا گیا۔ انہیں مزید کچھ روز سی سی یو میں رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر حسنات سے پرویز مشرف کو بیرون ملک لے جانے پر رائے طلب کی گئی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی رپورٹس کا میڈیکل بورڈ نے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ میڈیکل بورڈ کے فیصلے کے بعد سابق صدر کے علاج کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے بیٹے بلال مشرف اوروکلا پینل کوآج سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی اجازت ملنے کا بھی امکان ہے۔ پرویز مشرف کی صحت پہلے سے بہتر ہے، انہیں کولیسٹرول کم کرنے کی ادویات دی جا رہی ہیں۔