قومی اسمبلی اور سینٹ میں فوجی عدالتوں کیلئے 21ویں آئینی ترمیم کی دوتہائی اکثریت سے منظوری
قومی اسمبلی اور سینٹ نے ایک ہی روز میںملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے آئین میں 21ویں ترمیم کی گزشتہ روز دوتہائی کی اکثریت سے منظوری دیدی۔ دونوں ایوانوںمیں موجود کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے اس ترمیمی بل کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا جبکہ اس ترمیمی بل پر تحفظات کے باعث جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ارکان بھی اپنی پارٹی پالیسی کے تحت اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے 11 ارکان قومی اسمبلی بھی ملک میں عدم موجودگی کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں شریک نہیں ہوئے جبکہ ایوان میں موجود حکمران مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم (متحدہ)‘ مسلم لیگ (ق)‘ مسلم لیگ (فنگشنل) کے ارکان اور قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی اور اے این پی کے دو ارکان سمیت تمام ارکان نے اس ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا۔ 21ویں آئینی ترمیم کا بل چار ترامیم پر مشتمل ہے جس میں دہشت گردی کی تعریف‘ فوجی عدالتوں کے قیام اور ان عدالتوں کی مدت کے تعین کی شقیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد یہ ترمیمی بل اب صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ آئین پاکستان کا حصہ بن جائیگا۔
اس آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی پیدا کردہ غیرمعمولی صورتحال ہے جو پاکستان کیخلاف دہشت گردی‘ جنگ کرنے یا بغاوت کرنے سے متعلق بعض جرائم کی فوری سماعت مقدمہ اور کسی دہشت گرد یا دہشت گرد گروپ اور ایسے مسلح گروپوں اور عسکریتی گروپوں کے افراد کی جانب سے مذاہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرکے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق کرنیوالے افعال کی روک تھام کیلئے خصوصی اقدامات کی متقاضی ہے۔ یہ ایکٹ دستور 21ویں ترمیمی ایکٹ مجریہ 2015ء کے نام سے موسوم ہو گا‘ جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگا جس کی دفعات اسکے نفاذ کی تاریخ سے دو سال کی مدت کیلئے نافذالعمل رہیں گی اور متذکرہ مدت کے اختتام پر یہ تنسیخ شدہ متصور ہونگی۔ اس ترمیمی آئینی بل کے ذریعے پاکستان آرمی ایکٹ مجریہ 1952ء پاکستان ایئرفورس ایکٹ مجریہ 1953ئ‘ پاکستان نیوی آرڈی ننس مجریہ 1961ء اور تحفظ پاکستان ایکٹ مجریہ 2014ء میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود 247 ارکان کے سامنے یہ آئینی ترمیمی بل وفاقی وزیر قانون پرویز رشید نے پیش کیا جس کیلئے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے دھواں دھار تقریر کرکے اسکے حق میں فضا ہموار کی تھی جبکہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی اسکے حق میں تقریر کرتے ہوئے اسے بڑا کارنامہ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ اگر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھانے کی متقاضی الطاف بھائی کی باتوں پر کان دھرا گیا ہوتا تو آج فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وزیراعظم نوازشریف کی طلب کردہ پارلیمانی آل پارٹیز کانفرنسوں میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم انکی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا اور اس امر پر زور دیا جاتا رہا کہ اس آئینی ترمیم کو دہشت گردی کے خاتمہ پر فوکس کیا جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا نہ ہونے دیا جائے جیسے یہ آئینی ترمیم مذاہب یا کسی فرقے کا نام استعمال کرکے ہتھیار اٹھانے والے گروپوں کی سرکوبی کیلئے لائی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس آئینی ترمیم کو ملک میں مذہبی منافرت کی فضا بڑھانے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ اس سے قوم دہشت گردی کیخلاف متحد ہونے کے بجائے مزید تقسیم ہو جائیگی جبکہ اس ترمیم کے ذریعے دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ منسلک کرنے کی مغربی دنیا کی سازش کو ہی تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔ انکے لب و لہجے میں تلخیوں کے علاوہ انکے مستقبل کے عزائم کی جھلک بھی موجود تھی جس میں وہ حکومتی اتحاد سے نکل کر ایم ایم اے کی طرز پر دینی جماعتوں کے نئے اتحاد کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے نظرآئے۔ چونکہ جماعت اسلامی بھی اس آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنی اس لئے گمان کیا جا سکتا ہے کہ متذکرہ آئینی ترمیم کیخلاف کسی ممکنہ مزاحمتی تحریک میں جماعت اسلامی بھی مولانا فضل الرحمان کے ہمقدم ہو گی اس لئے اگرچہ قومی اتحاد و یکجہتی کی جذباتی فضا میں حکومت نے دونوں ایوانوں سے یہ ترمیم منظور کرالی ہے تاہم اس آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کی تشکیل پر حکومت کو سخت چنے چبانا پڑ سکتے ہیں کیونکہ وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کا غالب حصہ بھی ملک کی تمام ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنوں کی قیادت میں فوجی عدالتوں کی مزاحمت کیلئے صف بندی کررہا ہے جو ان عدالتوں کی تشکیل کو آئین کی روح کے منافی متوازی عدالتی نظام کے نفاذ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ماضی کے مارشل لاء ادوار میں فوجی عدالتوں سے منسوب تلخ تجربات بھی بالخصوص جمہوری دور حکومت میں ان عدالتوں کی تشکیل پر سیاسی اور قانونی حلقوں کے تحفظات کے اظہار کا باعث بن رہے ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کے تحفظات اس حوالے سے ہیں کہ یہ ایکٹ امتیازی قانون کے زمرے میں آتا ہے جسے ان جماعتوں کے قائدین کے بقول دینی مدرسوں کیخلاف استعمال کیا جائیگا۔ بادی النظر میں فوجی عدالتوں کی تشکیل سے متعلق قانون عسکری قیادتوں کے دبائو پر لایا جا رہا ہے جس سے عملاً جمہوری نظام اور مروجہ عدالتی نظام بے اثر اور غیرمتعلقہ ہو جائیگا اور فوجی آمریت کیلئے عوام کی قبولیت کی راہ ہموار ہو جائیگی۔ اس طرح حکمران جماعت سمیت اس آئینی ترمیم کا حصہ بننے والی تمام سیاسی جماعتیں فوجی آمریت کی آئین کے تحت گنجائش نکلوانے کی سزاوار ٹھہریں گی جو اچھی سے اچھی آمریت سے بری سے بری جمہوریت کے بھی بہتر ہونے کا قوم کو وعظ دیتی رہی ہیں۔
اگر ملک میں آئین کی عملداری ہے تو اسکے ہوتے ہوئے چاہے کوئی آئینی ترمیم ہی کرلی جائے‘ فوجی عدالتوں کی تشکیل بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم قرار پائے گی جبکہ بنیادی آئینی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی کی پارلیمنٹ بھی مجاز نہیں ہوتی۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ فوجی عدالتوں کا جواز نکالنے کیلئے مروجہ سول عدلیہ کا بگڑا ہوا چہرہ قوم کو دکھانے کی کوشش کی گئی اور انصاف میں تاخیر سے متعلق ہر خرابی کا الزام عدلیہ پر دھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی جو ان عناصر و طبقات کا ہی ایجنڈا ہوتا ہے جنہیں جمہوری نظام میں آئین و انصاف کی عملداری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گزشتہ روز چودھری نثارعلی خان نے بھی قومی اسمبلی میںخطاب کرتے ہوئے مروجہ عدالتی نظام کے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرینوالے جج حضرات اپنے بچوں اور اہل خانہ کی جانوں کو خطرے سے متعلق موصول ہونیوالی ٹیلی فونک دھمکیوں کے باعث ان مقدمات کی سماعت سے گریز کرتے رہے ہیں جس کے باعث انصاف میں تاخیر ہوئی‘ جبکہ انکی یہ بات بے باک اور آزاد عدلیہ سے منسوب حقائق کو جھٹلانے کے مترادف تھی‘ وہ اس حقیقت کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے سنگین مقدمات میں ملوث خطرناک ہزاروں ملزمان کو ہر قسم کے خطرے کے باوجود ان عدالتوں نے ہی موت کی سزا سنائی تھی۔ اگر ان سزائوں پر حکمرانوں کی اپنی مصلحتوں کی بنیاد پر اب تک عملدرآمد نہیں ہو پایا تھا تو مروجہ عدل گستری اسکی ذمہ دار کیسے ٹھہرتی ہے۔ اگر مروجہ عدالتوں کے فاضل جج اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیوں کو خطرات کے باوجود جرأت و پامردی کے ساتھ انصاف کی عملداری کے تقاضے نبھاتے اور دہشت گردوں کو موت تک کی سزائیں دیتے رہے ہیں تو اب ملک کے خصوصی حالات میں بھی جبکہ دہشت گردی کا خاتمہ قومی ایجنڈا بن چکا ہے‘ یہی عدالتی نظام دہشت گردوں کی سرکوبی میں بھی معاون بن سکتا ہے جبکہ انصاف کی عملداری کے ان مراحل میں ہماری سکیورٹی فورسز متعلقہ فاضل ججوں اور انکے اہل خانہ کی حفاظت کی ذمہ داریوں پر مامور کی جاسکتی ہیں۔ انصاف کے تقاضے تو بہرصورت ان فاضل ججوں کے ذریعے ہی نبھائے جا سکتے ہیں جنہوں نے عدل گستری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔ اگر مروجہ نظام عدل میں پراسیکیوشن سے متعلق کچھ خامیاں موجود ہیں تو انہیں دور کرنا حکومت کی ہی ذمہ داریوں میں شامل ہے نہ کہ ان خامیوں کی بنیاد پر پورے نظام عدل پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کیا جانے لگے۔ یہ صورتحال تو ملک کو انصاف کی فراہمی و عملداری سے دور جانے اور اسے پھر سرزمین بے آئین بنانے کے مترادف ہو گی۔ یہی وہ معاملات ہیں جو آئینی اور قانونی حلقوں اور فوجی عدالتوں کو بھگتنے والے سیاسی کارکنوں میں اضطراب کا باعث بن رہے ہیں۔ بے شک اب قومی اسمبلی اور سینٹ سے فوجی عدالتوں کی تشکیل کی آئینی ترمیم ایک ہی دن میں منظور کرالی گئی ہے جو صدر مملکت کے دستخطوں سے آئندہ ایک دو روز میں نافذالعمل ہو جائیگی مگر اس آئینی ترمیم کے حوالے سے آنیوالے حالات ملک و قوم کیلئے کسی اچھائی کا باعث بنتے نظر نہیں آرہے۔ بالخصوص جمہوریت کی حکمرانی میں جمہوریت پر کلہاڑا ہماری سیاسی تاریخ کے تاریک ابواب کا حصہ بنتا نظر آتا ہے۔