مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
یہ الفاظ دنیا سے رخصت ہوجانیوالے ان دوستوں اور بزرگوں کے ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی بھر بڑے کام انجام دیئے مگر انہیں بے حس، حاسد، مفاد پرست اور بے ضمیر دنیا والوں نے صرف تسلیم ہی نہ کیا مگر کارہائے نمایاں انجام دینے والے شخص اور بڑے انسان کو گوشہ تنہائی/ گمنامی میں پھینکے رکھا اور جب وہ بڑے لوگ سوسائٹی کے مظالم سہتے سہتے دار فانی سے کوچ کر گئے تو نہ صرف انکی یادمیں تقریبات منعقد کی گئیں بلکہ ان کی قبروں کو عالیشان مزاروں کا روپ بھی دیدیا گیا۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو انسانوں کی خوبیوں صلاحیتوں کو اس کے مر جانے کے بعد تسلیم کرتی ہے بلکہ میں نے تو سینکڑوں آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں جو جانے والوں کی یاد میں بہائے جا رہے تھے.... کیا ہم مردہ پرست قوم بن چکے ہیں اس کا مدلل اور تفصیلی جواب تو وطن عزیز کے دانشور ہی دے سکتے ہیں۔ اس بارے میں میں رائے کا اظہار کرنے سے گھبراتا ہوں کیونکہ انتہا پسندی ہمارے رگ وپے میں اس بری طرح سے سرائت کر چکی ہے جس کا توڑ کم از کم ایسے ناتواں قلمکار کے پاس تو ہرگز نہیں۔ اگر جواب ہے بھی تو میں کبھی اظہار نہیں کرونگا کیونکہ میں فی الحال غیر طبعی موت مرنا نہیں چاہتا اور سچائی کو گاﺅں گاﺅں، قریہ قریہ، محلے محلے اور گلی گلی پہنچانے کا جذبہ رکھتا ہوں۔سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز تو یہ ہے کہ سچ کو دبانے کیلئے سچائی بیان کرنیوالوں کے گلے تو کاٹ دیئے جاتے ہیں اور ہمارا مروجہ قانون آج تک سچ کے قاتلوں کو تختہ دار تک نہ پہنچا سکا اور آج بھی قانون کی گتھیوں کو کھولنے اور سلجھانے میں مصروف ہے۔ سلمان تاثیر کا قاتل کوئی غیر نہیں اپنا گارڈ تھا اپنے صاحب کو سر عام قتل کر کے پکڑا گیا۔ ہمارے قانون میں ہماری عدلیہ میں اتنی طاقت نہیں کہ قاتل کو سزا دے اور اس پر عملدرآمد بھی کروائے، ہم مصلحت کا شکارہیں ہماری عدلیہ کو زندگی عزیز ہے ہمارے وکلاءآپس میں دست و گریبان ہیں حکمران اپنی رٹ کھو چکے ہوئے ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد امید بندھی تھی کہ پاکستانی فوج، پاکستانی حکمران و دیگر سیاستدان و علمائے کرام معصوم پھولوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینگے وہ دن اور آج کا دن اجلاس پہ اجلاس ہو رہے ہیں پہلے پہل ان اجتماعی میٹنگوں میں ایک جوش ایک جنوں اور ایک جذبہ نظر آرہا تھا مگر سچ جانیئے کہ آج حکومت مجبور نظر آنے لگی ہے وجہ مشکل نہیں بیان کئے دیتا ہوں کہ پاکستان میں مصلحت پسندوں، دہشت گردوں کے حمائتیوں اور حاشیہ برداروں کی کمی نہیں جو حکومت اور فوج کو ایسے ایسے مسائل میں الجھانے لگے ہیں جنہیں دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے چونکہ ابھی پاکستانی لیڈر شپ کٹی کٹا نکالنے پر لگی ہوئی ہے اس لئے اپنی رائے کو منظر عام پر نہیں لا رہا البتہ میرا ضمیر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ قوم کو بتاﺅں کہ ہماری صفوں میں موجود دہشت گردوں کے درجنوں چیلے محب وطنوں کو کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے نہیں دے رہے۔ کبھی مدرسوں کے نام پرکبھی فوجی عدالتوں پر بحث چھیڑ کر انتظامیہ کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں دوسری طرف یہ سچ بیان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ ان حالات میں جنرل راحیل شریف اور نواز شریف ایک ہی پیج پر کھڑے ہیں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عہد کر چکے ہوئے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ مدرسوں کو نہ چھیڑا جائے کیوں جناب؟ اگر پورے ملک میں سرچ آپریشن ہوگا تو مدرسوں میں کیوں نہیں؟ اور یہی چیز یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زیر نظر کالم کی اشاعت تک قومی ایکشن پلان کو منظور کر لیا گیا ہو اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے بعض لوگ قومی ایکشن پلان پر ہر حال میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کریں گے اور نظر بھی آنے لگا ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور اور حالت جنگ میں دیکھتے ہوئے اٹھکیلیاں کرنے لگا ہے تا کہ پاک فوج کو کنفیوژ کیا جائے۔
مجھے کہنے دیجئے کہ وطن عزیز چاروں اطراف سے سازشوں کے منجدھار میں گھر چکا ہوا ہے اور ہم مصلحتوں کا شکار ہو کر اغیار کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں یہ وہی حالات بن رہے ہیں جن کا ادراک کرتے ہوئے حالی نے کیا خوب کہا تھا
اے خاصائے خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پر تیری آکہ عجب وقت پڑا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہبان
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
پاکستان زند ہ باد پاکستان کھپے
ہم اغیار کیلئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں
Jan 07, 2015