امریکی صدر رو دیے۔۔۔!

امریکہ میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما رو دیئے۔ پریس کانفرنس کے دوران اموات کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر اوباما کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ یہ منظر پاکستان کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کبھی دکھائی نہیں دیا۔ صدر اوباما نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے معصوم بچوں کے واقعہ کا جب بھی تذکرہ کرتے ہیں ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کیلی فورنیا کا حالیہ واقعہ بھی انتہائی المناک ہے۔ کاش! کبھی پاکستانی حکمران بھی اپنے بچوں کی شہادتوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو سکتے۔ پشاور آرمی سکول کا واقعہ دنیا کا افسوسناک ترین واقعہ ہے۔ تمام سیاسی قائدین وزیراعظم کی ایک کال پر تعزیت کے لیئے ٹی وی کیمروں کے سامنے اکٹھے ہو گئے لیکن ایک آنکھ بھی نم نہ ہو سکی بلکہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے سے ہنسی مذاق میں مشغول تھے۔ فوٹو سیشن میں پاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنمائوں سے بڑا ’’فنکار‘‘ دنیا میں نہیں‘ اگر یہ درد ان کے دلوں سے اٹھتا تو پاکستان کے گھر برباد نہ ہوتے۔ صدر اوباما اپنے لوگوں کی اموات پر رو دیئے اور پاکستان میں ’’اپنے‘‘ کا لفظ صرف اس شخص کے لئے بولاجاتا ہے جس کا خونی رشتہ مارا جائے‘ باقی سب کے لئے مرنے والا غیر ہوتا ہے۔ صدر اوباما نے اپوزیشن کی گن سے متعلق پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے ملک میں فائرنگ کے بڑھتے واقعات پر گن کنٹرول پالیسی کا اعلان کر دیا۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ گن وائلنس کا شکار ملک ہے جس سے ہر سال 30 افراد مارے جاتے ہیں۔ اموات کا تذکرہ کرتے وقت پریس کانفرنس کے دورا ن صدر اوباما کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ وہ بات کرتے رہے اور آنسو صاف کرتے رہے۔ صدر اوباما نے کہا الیکشن ہار بھی گیا تو گن وائلنس کو ختم کرکے دم لوں گا۔ مسلمان حکمران و سیاستدان جب اپنے لوگوں کی اموات پر ایک آنسو بہانے سے بھی محروم ہیں تو غیروں سے ہمدردی کی توقع کیوں کر ؟ مسلمان حکمرانوں کے دل پتھر ہو چکے ہیں تو اغیار سے امیدیں کس نسبت سے؟ امریکہ میں حساس دل افراد کی خاصی تعداد آباد ہے جو دنیا میں کہیں دہشت گردی کا واقعہ پیش آئے احتجاج کرتی نظر آئے گی۔ کیلی فورنیا میں پاکستانی نژاد میاں بیوی کے ہاتھوں گن فائرنگ میں مارے جانے والے لوگوں کا غم پوری انسانیت نے منایا۔ انٹرنیٹ پر دوستی کا ایک نتیجہ کیلی فورنیا کے واقعہ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا۔ انٹرنیٹ ایک مہلک ہتھیار بنتا جا رہا ہے جو کبھی فحاشی کے نام پر اور کبھی انتہا پسندی کے نام پر گھروں کے گھر برباد کر رہا ہے۔ کالم نگار اپنے ذرائع یا میڈیا رپورٹس کا محتاج ہوتا ہے۔ ذرائع کی معلومات مہیا کرنا یا نہ کرنا اس کی صوابدید پر ہے‘ کالم شائع کرنا یا نہ کرنا ادارے کی مرضی۔ لیکن ایک حقیقت پر تمام اہل ضمیر متفق ہیں کہ
پاکستان کو دہشت گردی کے جہنم سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک اہل قلم حق گوئی کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ نوائے وقت حق گوئی کے نتائج برسوں سے بھگت رہاہے کبھی اشتہارات کی پابندی کی صورت میں اور کبھی دھمکیوں کی شکل میں۔ پاک فوج ضرب عضب اور دیگر آپریشن میں مصروف ہے لیکن میڈیا اپنے فرض میں کوتاہی برت رہا ہے۔ سیاسی ٹاک شوز اور کالموں کے علاوہ بھی اہم ترین موضوعات ہیں جن کی قوم کو اشد ضرورت ہے۔ قوم کی درست سمت رہنمائی کرنا میڈیا کا فرض ہے۔ ناچ گانے، عریانی و فحاشی اور مسخرے سکالروںکے بجائے سنجیدہ پروگراموں اور مباحثوں کی ضرورت ہے۔ دولت و شہرت کے لئے سب ہی گھٹیا راستے اختیار کرنے لگے تو زمینی حقائق کی نشاندہی کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ ووٹ بکتے ہیں اور غریب ووٹ دیتے وقت کہتا ہے کہ ’’سارے چور ہیں‘‘ جو بھی آجائے ہماری قسمت نہیں بدلے گی، پانچ دس ہزار روپے میں اپنا ووٹ بیچ دیں، وقتی ضرورت تو پوری ہو جائے گی۔ انتہا پسند تنظیموں سے منسلک ہونے والے افراد کا اپنا موقف ہے کہ پاکستان میں اسلام نافذ ہونا چاہئے اور وہ ہمارا امیر‘ خلیفہ‘ قائد‘ امیرالمومنین کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کر سکتا۔ حق گوئی کی سزا پوری دنیا میں صحافی بھگت رہے ہیں۔ داعش تنظیم نے بہت سے صحافی موت کے گھاٹ اتار دیئے۔ داعش کے ہاتھوں پہلی خاتون صحافی رقیہ حسن کا بھی سر قلم کر دیا گیا۔ رقیہ حسن داعش کے گڑھ رقہ میں رہائش پذیر تھی۔ داعش کی سر گرمیوں سے متعلق مواد انٹر نیٹ پر بھیجتی رہتی تھی۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اپنے صحافیوں پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ترکی میڈیا وائس نیوز کے ایک صحافی محمد رسول نے جو ڈیڑھ سال بعد قید سے رہا ہوا ہے میڈیا کو بتایا کہ ترکی کی جیلوں میںکئی صحافی حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں سالوں اور مہینوں سے قید ہیں۔ محمد رسول پر کوئی سنگین جرم ثابت نہ ہو سکا لہذا رہا کر دیا گیا جبکہ اس کے ساتھی فریڈم آف سپیچ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جہاں میڈیا اپنے فرض میں کوتاہی برتنے لگے وہاں سپر پاور امریکہ کا صدر بھی میڈیا کے سامنے رو دیتا ہے۔ ایک طاقتور صدر کے آنسو اس کی کمزوری کی دلیل ہیں کہ جو وہ دیکھ سن رہا ہے اس کے خلاف ایکشن لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اپوزیشن مجرموں کو سپورٹ کر رہی ہے اور مخصوص میڈیا گروپس بھی اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں جبکہ اس کا ملک اسلحہ کے بے جا استعمال سے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن