افتخارمحمد چوہدری بھولے ہیں کیا؟

پاکستان میں ڈیڑھ سو سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کچھ ایسی ہیں جن کے سربراہوں کو ووٹر تو ایک طرف، ان کے داماد اور بہوئیں بھی انہیں نہیں پہچانتیں۔ ذاتی خواہش زدہ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جو تمام عمر ریاست پاکستان کی تنخواہ پر گزارہ کرتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے سرپر سیاسی فلاح و بہبود کا بھوت سوار ہوگیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک فرد جوانی میں کرسی پر بیٹھا رہے اور بوڑھا ہوکر نوجوانوں کی ٹیم سے فٹبال کھیلنا شروع کردے۔ ایسے شخص نے جیتنا تو کیا ہوتا ہے، البتہ اس کے سفید بالوں میں کھیل کی خاک پڑ جاتی ہے۔ بوڑھے ہوکر ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں کِھلنے والی نامور معصوم ننھی کلیوں میں پہلے ایئر مارشل (ر) اصغر خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام آتا تھا۔ اب اس گلدستے میں حالیہ اضافہ ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سرسراہٹ سے ہوا۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت ’’پاکستان جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ کا اعلان کیا تو کچھ سوالات ذہن میں آئے۔ مثلاً پاکستان میں مئی 2013ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد تقریباً 86.1 ملین تھی جس میں سے تقریباً 46.2 ملین لوگوں نے اپنا ووٹ استعمال کیا۔ گویا پاکستان کے ووٹروں میں سے 55 فیصد نے پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کو اپنا نمائندہ سمجھا۔ افتخار محمد چوہدری اپنی نئی سیاسی جماعت بناکر پاکستان کے اِن 55 فیصد سے زائد ووٹروں کی جمہوری رائے کو کیا مسترد نہیںکر رہے ہیں؟ ان کی پارٹی ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتی ہے۔ آئینی طریقے سے نظام کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت ساتھ دے۔ اگر افتخار محمد چوہدری دن میں سہانے خواب دیکھتے ہوئے رجسٹرڈ ووٹروں کے بقیہ 45 فیصد حصے کے سارے ووٹ بھی حاصل کرلیں تب بھی پارلیمنٹ میں ان کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہوگی۔ سیاست کا کھیل بُل فائٹنگ سے زیادہ جسمانی مضبوطی والا کھیل ہے۔ افتخار محمد چوہدری کی عمر اِس وقت 67 برس ہے۔ اگر انتخابات 2018ء میں ہوں تو ان کی عمر لگ بھگ 70 برس ہو جائے گی۔ کیا 70 برس کے سفید بالوں والے سفید پوش انسان کو بُل فائٹنگ میں حصہ لینا چاہئے؟ جبکہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان، افتخار محمد چوہدری سے عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود بھی سیاست میں اب جسمانی تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور جنرل (ر) پرویز مشرف نے سیاسی جماعتیں بنائیں تو ان کی شخصیت کا تجزیہ کرنے والے سب جانتے ہیں کہ دورانِ سروس بھی ان میں سیاست کے جراثیم تھے۔ افتخار محمد چوہدری اپنے بارے میں ایسا نہیں مانتے۔ وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن لوگ بھی ان کی یہ دلیل نہیں مانتے۔ سیاسی جماعت معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ا س کا نام ایسا ہونا چاہئے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اَن پڑھ لوگوں کی زبان پر بھی آسانی سے چڑھ جائے۔ افتخار محمد چوہدری کی پارٹی پی جے ڈی پی کا نام سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ سی ڈی اے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، پی ڈی اے اور کیو ڈی اے جیسا کوئی شہری ترقیاتی ادارہ ہے جس کے ذمے علاقے کے مکینوں کو سینٹری، صفائی ستھرائی اور شہری سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ جو پارٹی عوامی نام نہیں رکھ سکی، وہ عوامی کیسے بنے گی؟ افتخار محمد چوہدری نے اپنی پارٹی کے نام میں جسٹس کا لفظ رکھ کرشاید اپنے سابقہ پیشے کو کیش کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اپنی پارٹی کے نام ’’تحریک تحفظ پاکستان‘‘ میں ایٹم بم، جنرل (ر) پرویز مشرف کو اپنی پارٹی کے نام ’’آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ میں پستول اور ایئر مارشل (ر) اصغر خان کو اپنی پارٹی کے نام ’’تحریک استقلال‘‘ میں جہاز کا اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ افتخار محمد چوہدری کے مشہور ہونے اور عزت داروں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ اُن کے ذاتی اوصاف سے زیادہ اُس وقت کے ملک کے مخصوص حالات تھے کیونکہ ان سے پہلے اور بعد میں بھی کئی جج صاحبان ایمانداری اور حکمرانوں کے آگے ڈٹ جانے کی شاندار روایت رکھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب انہیں بھی احساس کرنا ہوگا کہ ان کی شہرت کا گراف کس سطح پر ہے۔ افتخار محمد چوہدری کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پارٹی کے حشر نامے کو ایک مرتبہ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ تاریخ میں پھر لکھا جائے کہ کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔افتخار محمد چوہدری کے نظریات میں ابتدا سے ہی کھلا تضاد اور ابہام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا صرف جماعت اسلامی کی تعریف کی اگر انہیں جماعت اسلامی پسند تھی تو اس ہی میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ اپنی پارٹی بنا کر انہوں نے کیا جماعت اسلامی کو بھی چیلنج نہیں کیا؟کمزور جمہوری معاشروں میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ یہ الت جڑی ہوئی ہے کہ وہ اپنی مشہور ی کے لیے اپنے ساتھ پراپیگنڈہ کرنے والے اعلی پائے کے پیشہ ور خوشامدی رکھتے ہیںجو اپنے لیڈر کو دنیا کا بہترین لیڈر ثابت کرتے ہیں اور مخالفین کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں ۔ پرانے زمانے میں گائوں وغیرہ کے اندر ایسے لوگوں کو بھانڈ یا مراثی کہا جاتا تھا ۔ افتخار محمد چوہدری کے ارد گرد بھی ایسے لوگ ہیں جو ان عہدوں پرفائز ہونے کی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں لیکن افتخار محمد چوہدری کی ابھی ایسی اچھی قسمت سامنے نہیں آئی کہ انہیں ان عہدوں کے لیے اعلی پیشہ ور مناسب لوگ ملے ہوں۔پاکستانی لوگ سیاسی جماعتوں کی لنڈہ مارکیٹ میں مفاد پرستی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ جب سابق امریکی صدر بش کو جوتا مارا گیا تو لیڈروں کے خلاف غصے کے اظہار کا یہ کھیل پاکستان سمیت پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ افتخار محمد چوہدری کو پبلک میں جاتے ہوئے احتیاط کرنا پڑے گی کہ کوئی ایسا کھلاڑی وہاں بھی موجود نہ ہو۔ افتخار محمد چوہدری کے مطابق ان کی سیاسی جماعت فنڈ یافتہ نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کے چندے یا کنٹری بیوشن پر چلے گی۔ مسجدوں میں صدیوں سے جھولی پھیری جاتی ہے جس میں لوگ حسبِ توفیق چندہ ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی چھوٹی سے چھوٹی مسجد کے اخراجات اس چندے سے پورے نہیں ہوتے بلکہ کوئی نہ کوئی صاحبِ ثروت مسجد کے اخراجات پورے کرتا رہتا ہے۔ اگر مسجد صرف چندے پر نہیں چل سکتی تو افتخار محمد چوہدری کی پارٹی صاحبِ ثروت کے بغیر محض چندے پر کیسے چلے گی؟ کیا افتخار محمد چوہدری بہت بھولے ہیں یا دوسروں کو بھولا بنا رہے ہیں؟

ای پیپر دی نیشن