سود کا قضیہ اور اسلامی نظریاتی کونسل

Jan 07, 2016

محمود فریدی

اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں دو علماءنے گتھم گتھا ہو کر جو منظر بنایا اس میں ہماری مذہبی تاریخ کا عکس بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہمارے علماءزندگی کے عملی مسائل بارے سنجیدہ علم و تحقیق سے زیادہ فروعی اختلافات میں الجھے رہے۔ نظری بحثوں سے آگے تجرباتی و مشاہداتی تحقیق تو گویا وہ علاقہ تھا جہاں پرواز کرتے ان کے پَر جلنے لگتے تھے۔ جن آئمہ کرام اور امامین کی تحقیق و جستجو کو حتمی قرار دے کر مسالک اور عقائد کے متحارب قلعے تعمیر کئے گئے ان میں حذف و اضافہ گناہ قرار دیا گیا یوں فتوے اور تکفیر کے ذریعہ نئی سوچ اور فکر پر پہلے سے بادل کا ٹکڑا باندھ دیا گیا۔ خیال کے آزاد سفر کو تو سرے سے الحاد اور کفر کا دوسرا نام دیدیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علماءکے جتھے آپس میں اختلاف کرنے اور مرنے مارنے کےلئے بالآخر دربار سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ اس نظریاتی طوائف الملوکی کا نقد نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان معاشروں میں ملکیت، قدرِ زر، معاوضے، مزارعت، کفالت، قرض، سود جیسے اہم بنیادی موضوعات پر اختلافی آراءدین اسلام کے بارے ابہام پیدا کرنے کا سبب بن گئیں۔ جدید معاشی سسٹم میں اسلامی معاشی نظریات آج بھی ناپختہ تصور کی طرح سہاروں کے متلاشی ہیں چند عربی اصلاحات کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہی ہیں۔ علماءنے ملکیت کی بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے سے قبل ہی سود کے نفاذ کو نفرت کا نشان تو بنا دیا ہے مگر جدید معاشی نظام میں اس کا جو متبادل پیش کیا ہے وہ خود موجودہ نظام کی اتباع کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام کا معاشی سٹرکچر کسی نہ کسی طرح اس کا چربہ محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً روزانہ کی بنیاد پر قدر زر اور اس کے معاوضے کا تعین، مضاربہ مشارکہ اور قرض کی تمام اقسام پر سود کے بجائے منافع کا اطلاق عملی دشواریوں کا وہ خار زار ہے جہاں بالآخر ڈیلی پراڈکٹ ہی چارہ بن جاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ سود کی ماہیت اور فلسفہ کیا ہے قرآنی امتناع کو بے جواز طریقے سے مسلط کرنے کےلئے ادھوری دسترس کام میں لائی جا رہی ہے۔ قرآن میں تو سود کے ساتھ ساتھ ملکیت کا ذکر بھی ہے۔ ملکیت بنیاد ہے جس سے سود کا تصور ابھرتا ہے۔ ملکیت سے ہی باقی تمام معاشی تصورات جنم پاتے ہیں۔ سود تو تب پیدا ہو گا جب آدمی کسی شے یا سرمائے کا مالک ہو گا اگر مالک ہی نہیں تو سود کیسا۔ ملکیت کی ادھوری ناقص تعریف کے بعد سود، استعمال، خدمت، معاوضہ کے موضوعات پر بحث ہی ممکن نہیں۔ اگر آدمی کی ملکیت ناقص ہے پھر مزارعت اور خدمت یعنی سود کے معنی بدل جاتے ہیں جو لوگ سود کا سوال اٹھاتے ہیں وہ کرائے، مزارعت، خدمت اور معاوضے کی تعریف میں تعصب کا رنگ شامل کر دیتے ہیں۔ سود کو کالعدم کرنے کےلئے ملکیت کے اسلامی تصور کو رائج کرنا ہو گا۔ آدمی کو مالک قرار دیکر سود کا امتناع ناقص دلیل ہے۔ اصل مالک تو خدا ہے۔ ذرائع پیداوار، زمین، سرمائے کا اسلامی تصور بادشاہت اور ملوکیت کی سیاسی بھوک کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسلام کو زندہ رکھنا مقصود ہے مگر آج کا مسلمان اس کو من و عن نافذ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اس کےلئے تو اقتدار ملکیت دونوں کو اصل مالک کی طرف لوٹانا ہو گا۔ محنت کو سرمائے کا غلام بھی بنانا ہے کیونکہ زمین پر انسان کی حقیقی ملکیت اس کا عمل ہے محنت کا معاوضہ اس کا حق ہے۔ محنت ہی سرمائے کا روپ دھارتی ہے مگر محنت کبھی انسان کو قارون نہیں بنا سکتی ایسا کرنے میں سیاسی اور معاشی ناانصافی اور استحصال کا دخل ہوتا ہے۔ استحصال کو پنپنے کے لئے جن قوتوں نے کردار ادا کیا ہے اس میں مذہبی علماءکا حصہ سرفہرست ہے۔ حکمرانوں نے ہمیشہ عالموں اور فوج کا سہارا لے کر من مانی کی ہے۔ اب انسانی محنت کے معاوضے نے سرمائے کی صورت پا کر سرمائے کی خدمت (سود) کو رائج کیا۔ سرمائے کا معاوضہ (سود) اس لئے بے جواز ہے کہ اس میں انسانی محنت کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمائے کا ایک معاوضہ سود ہے اسی طرح کرایہ ٹھیکہ اور دیگر کئی معاوضے بھی سراسر سرمائے سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اگر سود غلط ہے تو پھر سرمائے کا ہر معاوضہ غلط ہے مگر یہ جادو سر چڑھ چکا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد اسلامی معاشروں کو اپنے سیاسی انتشار اور بے راہ روی کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ اقتدار اللہ کا تھا ملکیت بھی اللہ کی تھی۔ اقتدار کو حکمران نہیں چھوڑنا چاہتے بہ الفاظ دیگر اللہ کی رضا کے مطابق حکمران چلنا نہیں چاہتے اور اس ناجائز قبضے نے رعایا کو ملکیت میں حصہ دار بننے کی رشوت دے رکھی ہے۔ حکمران بدکردار، رعایا چور! ایسا ماحول کب تک قائم رہ سکتا ہے۔ آبادی کے دباﺅ، وسائل محدود، ضروریات خواہشات ان گنت بلکہ روز افزوں، مارکیٹ اکانومی اور ریاستی فلاح کے جدید نظریات پر ہمہ وقت تحقیق و جستجو کا عمل جاری رہنا ضروری ہے مگر اسلامی معاشرہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی صورت، نام اسلام کا کام اپنی من مرضی کا۔ اگر سود ختم کرنا ہے تو لیبل کے مطابق بوتل میں منشائے ربی کا اہتمام کرو وگرنہ دھوکا فریب اور دو نمبری سے اجتناب کرو! اس بحث میں کئی بحثیں اور لاتعداد سوالات ہیں ہر روز نئے حالات مسلسل غوروفکر کے متقاضی ہیں مگر ہمارے علماءاپنے بھاری بھر کم لمبے ناموں کی لاج رکھنے اور اپنی بے عملی و کم عملی کا بڑا معاوضہ وصول کرنے کے چکر میں اول تو غوروفکر ہی نہیں کر رہے ہیں مگر جب کر رہے ہیں تو کیا۔ ”اقلیتوں کو ذمی قرار دے کر خراج وصول کیا جائے“ سبحان اللہ، ماشاءاللہ! اور پھر جب دلیل کم پڑ جائے تو مار دھاڑ، دہشتگردی، کلاشنکوف نہ سہی الفاظ کے تیر ہی سہی! الفاظ سے گریبان تک! حضور ذرا اپنے علم و فضل کی جھلک بھی تو دکھائیے! ملکیت اور سود کا قضیہ تو نبٹائیے! خالق کو اس کا اقتدار اور ملکیت تو واپس دلایئے! چلو اس پر غور ہی کیجئے اور کچھ روشنی ہی ڈالئے! لڑیئے مت اچھے بچے بن جایئے۔

مزیدخبریں