پلی بار گین/ مک مکا¶

قومی ا حتساب بیورو (NAB) کا اجرا سال 1999ءمیں ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصدکرپشن/ بداعمالی کا خاتمہ اور قلع قمع تھا۔ قابل مواخذہ افراد ادارے جو مالی بداعمالیوں میں ملوث ہوں ان کا احتساب اور سدباب کیا جا سکے۔ ان میں ملوث افراد سے لوٹی ہوئی رقم ‘جائیداد و دیگر اثاثہ جات کی ضبطگی اور 14 سال تک قید کی سزا دیا جانا قرار پایا۔ چیئرمین کی تقرری صدر پاکستان نے کرنی ہوتی ہے۔ جو برسراقتدار پارٹی کے ایماءپر ہوتی ہے جس پر مقبولیت کی سند صدر صاحب نے ثبت کرنی ہوتی ہے۔ موجودہ نیب چیئرمین وزیراعظم اور لیڈر حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے تعینات کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی کارکردگی پر اب حکومت اور حزب اختلاف دونوں معترض ہیں اس کے اختیارات پر سوال اٹھا رہے ہیں جس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خاں اور حقیقی اپوزیشن لیڈر عمران خاں نے اس کی کارکردگی پر سخت تنقید کی ہے۔
اس کا اجراءتو مالی بدعنوانیوں اور ہمہ قسم کی کرپشن کی روک تھام اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کیا گیا تھا عملاً ہماری اس کہاوت پر پورا اترتا ہے کہ ”بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی‘ عام لفظوں میں چور سے جو تھوڑا بہت وصول ہو سکے اسے غنیمت جانیں۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ چور شاذو نادر ہی پکڑا جاتا ہے اتفاق سے پکڑا جائے تو چوری شدہ مال کی وصولی ناممکنات میں سے ہے اکثر چور کھا پی جاتا ہے یا پولیس کی نذر ہو جاتا ہے۔ مدعی اگر طاقتور حیثیت کا مالک ہے توپولیس آدھے یا بچے ہوئے مال پر اسکو مجبور کر دیتی ہے۔
نیب کے قانون کے تحت کرپشن کے تحت کمایا ہوا مال و دولت بحق سرکار ضبطگی کا حکم ہے 14 سال قید ہے دیگر بہت سے سول حقوق جن میں الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی‘ ملازمت سے برطرفی بنک سے لین دین بند وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اس قانون کی رو سے اگر الزام علیہ باقاعدہ تفتیش شروع ہونے سے پیشتر رضاکارانہ طورپر حاصل کردہ مال و دولت واپس کرنے پر رضامند ہو تواس کے خلاف مقدمہ ختم کوئی سزا نہیں اور بری کر دیا جاتا ہے گویا باعزت بری ہو جاتا ہے اور اپنی سابقہ حیثیت پر بحال ہو جاتا ہے رضاکارانہ قبول نہ کرے اور اس کے خلاف باقاعدہ تفتیش شروع کر دی جائے تو دوران تفتیش الزام علیہ پلی بار گین / سودے بازی کی استدعا کر سکتا ہے اس استدعا پر چیئرمین صاحب کو صوابدیدی اختیار حاصل ہے کہ وہ اس سودے بازی سے متفق ہو کر اپنی سفارشات متعلقہ بنک عدالت کو بغرض قبولیت بھیج دیتا ہے منظوری کی صورت میں ملزم بری ہو جاتا ہے لیکن اپنی سابقہ پوزیشن پر بحال نہیں ہوتا اور کچھ سول حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔
نیب عدالتوں کو اگرچہ اس استدعا کو مسترد کرنے کے جملہ اختیارات حاصل ہیں لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نیب عدالت کے پاس نیب کی پراسیکیوشن برانچ نے کیس مرتب کرکے بھیجنا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ جب چیئرمین نیب کی سفارشات مسترد کر دی جائیں تو کیسے ممکن ہے کہ عدالت ملزم کو قرار واقعی سزا دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہر دو طریقہ کار کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ملزم سے مک مکا¶ کر کے اس کو دوبارہ آزادی دیدی جاتی ہے کہ وہ اپنے جرم کا ارتکاب دوبارہ کر سکے۔ الزام علیہ کو اپنے کئے کی پوری سزا نہیں ملتی۔
اگر چیئرمین نیب کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پلی بار گیننگ کے ذریعے کسی حد تک نقصان کا ازالہ ہو جاتا ہے ایک رپورٹ چیئرمین نیب کے مطابق اب تک 45 ارب 35 کروڑ روپے وصول کئے جا چکے ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ اور مشیر خزانہ کے فرنٹ مین سے 2 ارب روپے کی رقم وصول کر کے صوبائی خزانہ میں واپس کر دی گئی ہے۔ چالیس ارب کی خوردبرد شدہ رقم میں دو ارب کی واپسی اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ طریقہ کار کسی بھی لحاظ سے قابل تعریف نہیں ہے لیکن دوسری طرف جہاں مقدمات سالہا سال تک اپنے منقطی انجام تک نہ پہنچ سکیں ماضی کے میگا کرپشن کے مقدمات ہمارے سامنے ہیں۔ ان حالات میں سوداکاری یا سودا بازی کے ذریعے معاملات طے کرنا مجبوری ہے۔ یہ طریقہ کار بہت سے یورپی ممالک میں مروج ہے جن میں سوئٹزرلینڈ سرفہرست ہے۔ اگر غور کیا جائے تو مک مکا¶ کا یہ طریقہ کار اس کہاوت پر استوار نظر آتا ہے کہ ساری جاتی دیکھو تو آدھی دو چھوڑ۔ اس میں بہتری کی گنجائش ہے چیئرمین نیب کی بے مہار صوابدیدی اختیارات پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے سپریم کورٹ کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کی جا سکتی ہے بلکہ ہو سکے تو سپریم کورٹ کا ایک بنچ اس کے لئے مختص کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن