”منروا“کی منلکیت آف شور کمپنیاں کب او ر کیسے بنیں، شریف فیملی ثبوت دے ورنہ تحریک انصاف دعویٰ درست سمجھیں گے: سپریم کورٹ

Jan 07, 2017

اسلام آباد (این این آئی+ آئی این پی) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس معاملہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کیا جائے، شریف خاندان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتی ہے تو دستاویز فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، بتانا پڑے گا کہ کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرے، سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جبکہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیسکول سے متعلق تحریک انصاف کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات پر جعلی دستخط ہیں۔ جمعہ کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پانامہ لیکس پر درخواستوں کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مریم نواز نے کہاکہ وہ جائیداد کی بینیفیشل مالک نہیں، صرف کمپنیوں کی ٹرسٹی اور سگنیٹری ہیں اور ٹرسٹی ہونے کا مقصد موجودہ ٹرسٹی کی موت کی صورت میں ٹرسٹ کو چلانا ہے۔ مریم نواز کے مطابق نیسکول سے متعلق دستاویزات پر جعلی دستخط ہیں، یہ دستاویزات نام نہاد پانامہ لیکس کا حصہ نہیں۔ مریم نواز نے اپنے جواب میں 5 سال کی آمدن کی تفصیلات بھی بتادیں اور اس پر انکم ٹیکس کی تفصیلات بھی دی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے شریف فیملی کے مالیاتی مشیر ہارون پاشا کا انٹرویو بطور ثبوت عدالت میں جمع کرایا گیا جو انہوں نے 6 دسمبر 2016 کو نجی ٹی وی کو دیا تھا۔ عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرویو کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل پر عدالت نے کہا کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کیا جائے۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کےخلاف الیکشن کمشن میں بھی یہی معاملہ زیر سماعت ہے اور الیکشن کمشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد دائر ہوئیں یا پہلے۔ جس پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمشن کے روبرو بھی وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ ہے اور الیکشن کمشن میں درخواستیں پہلے سے دائر تھیں۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے نام سے 1993 سے 1996 کے درمیان بے نامی فلیٹس خریدے گئے، جب فلیٹ خریدے گئے اس وقت مریم نواز کم عمر تھیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، دنیا کو دکھانے کےلئے مریم نواز کو بینیفشری ظاہر کیا گیا، ان کے اصل مالک نواز شریف ہیں، اسی طرح دبئی میں بھی بے نامی سٹیل مل لگائی گئی۔ انہوں نے بتایا مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں لیکن ان کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی، 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4 کروڑ 23لاکھ، 2012 میں اپنے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے قرض لیا۔ 2013 میں پھر والد نے 3 کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آپ کی بات سے مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضح نہیں ہوتا۔ التوفیق کیس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا اس میں میاں شریف، عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے۔ لندن فلیٹس مریم نواز کو کب اور کیسے منتقل ہوئے۔ کیا مریم کو جائیداد منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے، کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ہے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں تاہم مریم نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فراہم کردہ دستاویز درست ثابت کریں۔ ایک دستاویز میں مریم نواز سامبا بنک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہیں، تحقیقاتی ادارے نے موزیک فرم سے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں اور کمپنیوں کی ملکیت اور دیگر امور سے متعلق دریافت کیا، تحقیقاتی ادارے کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیئے گئے، ان میں مریم اور ان کی فیملی رہائش پذیر ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بے نامی جائیدادوں سے متعلق قانون موجود ہے، کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے۔ تنازع صرف ٹرسٹی اور بینیفیشل مالک کا ہے، مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹی اس ڈیڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔ موزیک فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے، بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے۔ معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع آمدن فیملی بزنس لکھا ہے، اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے۔ دوسرا فریق بتائے کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور پیسہ کہاں سے آیا ہم سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالت کو شریف فیملی کی طرف سے نامکمل ریکارڈ دیا گیا۔ شریف فیملی دستاویزات نہیں دیتی تو نعیم بخاری کی بات ماننا پڑے گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے اپنے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے پتے ظاہر کریں۔ بخاری صاحب آپ کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ میں پیر تک اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔بی بی سی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف کی فیملی مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ’منروا‘ کی ملکیت ثابت نہ کرسکی تو عدالت یہ تصور کرے گی کہ اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کا دعویٰ درست ہے۔ بنچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بارِ ثبوت فراہم کرنا ا±ن افراد کی ذمہ داری ہے جن کے قبضے میں جائیداد ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نیسکول‘ اور ’نیلسن‘ منروا کمپنی کے نیچے کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیدادیں خریدی گئیں جبکہ مریم نواز منروا کمپنی کی ’بینیفشری‘ ہیں۔ ا±نہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں لندن میں جب یہ جائیداد خریدی گئی تھی اس وقت مریم نواز وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر کفالت تھیں۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹ مریم نواز کی ملکیت ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ا±ن کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹس مریم نواز کو منتقل کیے گئے۔ اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ عدالت کو اس بارے میں ثبوت مریم نواز فراہم کرسکتی ہیں۔ بنچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانونِ شہادت کے مطابق کسی بھی شخص کو ایسی دستاویزات عدالت میں پیش کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو ا±س کے خلاف جاتی ہوں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت میں جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ا±نہیں جانچے بغیر زیرِ غور نہیں لایا جاسکتا۔ بنچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے اور عدالت جب چاہے اس ضمن میں ریکارڈ طلب کرسکتی ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ عدالت اس ضمن میں دوسرے فریق کا موقف سن کر احکامات جاری کرسکتی ہے۔ سماعت کے دوران وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا بیان بھی عدالت میں جمع کروایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جائیداد کی بینیفشری نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر موجودہ ٹرسٹی فوت ہوجائے تو اس کے بعد وہ ان کمپنیوں کے معاملات کو دیکھ سکتی ہیں۔ مریم نواز شریف کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں، ان پر ان (مریم نواز) کے جو دستخط دکھائے گئے ہیں وہ جعلی ہیں۔ اس جواب میں مریم نواز کی طرف سے گذشتہ پانچ سال کے دوران آمدن پر دیئے گئے انکم ٹیکس کی معلومات بھی فراہم کی گئیں۔ بنچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کے بارے میں بنچ کو مطمئن کریں اور اگر تفصیلات نہ دی گئیں تو پھر ان دستاویزات کو ادھورا سمجھا جائے گا۔ ا±نہوں نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت کچھ ثبوت فراہم کرنا ا±ن کی بھی ذمہ داری ہے۔
پانامہ کیس

مزیدخبریں