موٹر سپورٹس کے ذریعے پاکستان میں امن کا پیغام لے کر نکلا ہوں: شاہد جمیل رانا

Jan 07, 2017

گل نواز
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں چاروں موسم پائے جاتے ہیں۔ ان موسموں کی وجہ سے پاکستان کا حسن مزید بڑھ جاتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں پاکستان کے اس حسن کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں بدقسمتی سے دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان کے اس حسن کو ماند کرنا شروع کر دیا ہے۔ صورتحال اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دنیاکے سیاحوں نے پاکستان کا رخ کرنا بند کر دیا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسے نوجوان اب بھی اس حسن کو دینا میں متعارف کرنے کے لیے سرگرم ہیں جو پاکستان کی سیر کے ذریعے اس بات کا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے یہاں کے لوگ پیار کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستانی نوجوان شاہد جمیل رانا نے موٹر سپورٹس کے ذریعے پاکستان بھر میں سفر کا آغاز کیا ہے اور ہر جگہوں پر جا کر اس بات کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے حسین ممالک میں ہوتا ہے۔ شاہد جمیل رانا نے موٹر سائیکل پر امن کا پیغام لیکر پاکستان کے مختلف شہروں کے سفر کا آغاز چار ماہ سے کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ سات ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر سکے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا مقصد جاننے کے لیے خصوصی نشست ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے مجھے بے حد پیار ہے میرا کوشش ہے کہ لوگوں کے درمیان تعلقات میں جو خلا پیدا ہو رہا ہے اسے اپنے سفر کے ذریعے پہلے دور کروں۔ الحمدا ﷲ جہاں کہیں بھی گیا ہوں لوگوں نے مجھے بہت محبت دی ہے۔ اس سفر کا مقصد صرف سفر نہیں ہے، لوگوں میں بھائی چارے کا فروغ اس کا ایک مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں لاہور کا رہائشی ہوں اور جاپانی ٹور گائیڈ رہ چکا ہوں۔ موٹر سائیکل پر پاکستان کا سفر رائیڈ فار پیس کے نام سے شروع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں دوستوں کے ساتھ ملکر پروگرام بنایا تھا لیکن دوستوں کے ساتھ پروگرام نہ بننے کی بنا پر اس بات کا فیصلہ کیا کہ اکیلا ہی اس مشن کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے سفر پر نکلوں گا۔ اس کام کے لیے 9 لاکھ روپے مالیت سے اپنی مدد آپ کے تحت ایک موٹر سائیکل تیار کی تاکہ سفر میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جہاں کہیں بھی گیا لوگوں نے میری سوچ سے بڑھ کر مجھے عزت دی اور اپنے درمیان پا کر اس بات کا احساس لایا کہ ہر کسی کو اس بات کی طرف ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر لوگوں کے مسائل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے لوگوں کو بتایا کہ میں اکیلا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا اس کے لیے سب لوگئوں کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ جہاں بھی گیا لوگوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ملک کا سوفٹ امیج متعارف کرانے کے لیے ہر ممکن اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ لوگو بھرپور تعاون کرنے والے ملے۔ جہاں بھی جاتا مہمان نوازی سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا تھا کہ لوگ اب بھی ایک دوسرے سے پیار کرنے والے ہیں لیکن معاشی مسائل نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ چالیس دن کا سفر ابھی مکمل کیا تھا تو لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ گھر کب واپس جائیں گے تو میرا ایک ہی جواب تھا کہ امن کا پیغام لیکر گھر سے نکلا ہوں اپنے سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کرونگا تاکہ پاکستان کے پرامن ملک ہونے کا پیغام گھر گھر پہنچا سکوں۔ اس سلسلہ میں جب بعض جگہوں پر گیا تو وہاں کے بزرگ موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی فارن پالیسی کی وجہ سے وہ یہاں نہیں آ پا رہے ہیں۔ میرے سفر کے دوران ایک اٹالین سیاح بھی ملا جس کا کہنا تھا کہ آپ کی حکومت اگر فارن ٹورسٹ کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کرئے تو یورپ کے سیاح بڑی تعداد میں پاکستان آنے کو تیار ہیں۔ امن کے پیغام کے سفر میں مجھے ملائیشین بائیک رائیڈر، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سیاح بھی ملے جو پاکستان کو دنیاکے حسن ممالک قرار دے رہے تھے۔ ان کے الفاظ حسن کو مجھے خوشی بھی محسوس ہوئی کہ غیر ملکی لوگ پاکستان کی تعریف کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حکمران اس سلسلہ میں ان غیر ملکی سیاحوں کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے متعلق ہمیں جو کچھ بتایا جا رہا تھا یہاں آ کر ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ یہاں کے لوگ پیار اور محبت کرنے والے مہمان نواز ہیں۔ چائنہ سے بڑی تعداد میں ٹورسٹ پاکستان آتے ہیں چائنہ میں ٹورازم حکومت کے ماتحت ہے جہاں کے ٹورسٹ کو وہ عزت نہیں ملتی جو پاکستان میں ایک سیاح کو حاصل ہے۔ چائینز سیاح جب پاکستان آتے ہیں تو انہیں پہاں بہت زیادہ عزت ملتی ہے، پاکستانی عوام بہت زیادہ پیار کرنے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن کا مشن لیکر پاکستان کا 45 فیصد سفر مکمل کر لیا ہے جس پر بھاری اخراجات آ چکے ہیں، کوئی بھی عام شخص ان اخراجات کو خود برداشت ن ہیں کر سکتا۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد جو ملک کا سافٹ امیج متعارف کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرئے۔ اگلے مرحلے میں جنوبی پنجاب، کراچی، کوئٹہ اور وزیرستان کا سفر ترتیب دے رہا ہوں۔ مجھے اس سلسلہ میں سپانسر شپ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ سفر میں بہت ساری مشکلات کے ساتھ اخراجات بھی آڑے آتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو چاہیے کہ وہ بھی میری سپورٹ کریں تاکہ ان کی مدد سے امن کا پیغام پاکستان کے کونے کونے تک پہنچا سکوں۔ پرائیویٹ اداروں کو اس سلسلہ میں ہر کسی کو مکمل سپورٹ کرنا چاہیے کیونکہ سیاحت کے ذریعے جتنا امن پھیلایا جا سکتا ہے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ شاہد جمیل رانا کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور ہمارے سیکورٹی اداروں نے ملک میں امن کے قیام کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی تاہم اس کے لیے ہمیں لوگوں کو باور کرانا ہوگا کہ آزادی کیا چیز ہے۔ پاکستان بھر میں امن کا پیغام پہنچانے کے لیے ورلڈ ٹور پر بھی جانے کا ارادہ ہے جس کا مقصد امن کا پیغام دینا میںبھی لے کر جانا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے جہاں کے لوگ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ سیاحت کے فروغ سے جہاں لوگوں میں میل ملاپ بڑھتا ہے وہیں پر اس ملک کی معاشی حالت کی بہتری میں بھی مدد ملتی ہے۔

مزیدخبریں