سپورٹس رپورٹر
کھیل کوئی بھی ہو اس کی ترقی کا انحصار اس کے منتظمین کی اچھی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی محنت پر ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے تاہم ہمارے کھلاڑیوں کو کھیل کی سہولیات کے ساتھ ساتھ اچھے انفراسٹرکچر کی بھی ضرورت ہے اور اگر ٹیلنٹ موجود ہو اسے موقع نہ دیا جائے تو اس سے بھی کھیلوں کی ترقی رک جاتی ہے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں سب سے زیادہ پیسے کی ریل پیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قومی کھیل ہاکی سمیت دیگر تمام کھیلیں ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہو تی چلی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے روایتی کھیل کبڈی کو یہی لے لیں جس میں پاکستان ٹیم نے، ایشین بیچ گیمز، ایشیا کپ، ایشین گیمز، ساوتھ ایشین گیمز، ورلڈ کپ جیسے بین الاقوامی ایونٹس میں وکٹری سٹینڈ کو اپنا مقدر بنا رکھا ہے۔ کھیلوں میں جیسے جیسے جدت آ رہی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنایا جائے اور ترقی کی جائے تاکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ٹیموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے نوجوانوں کو کھیل کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لیے کرکٹ، ہاکی، فٹبال اور کبڈی جیسے کھیلوں کے لیگ مقابلوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک کو اچھے باصلاحیت کھلاڑیوں کی بڑی کھیپ میسر آ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرز عمل کو اپنایا گیا جس کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے نام سے پہلا ایونٹ فروری 2016ء میں امارات میں منعقد کرایا تھا۔ پہلا ایڈیشن کامیاب رہا تھا اب دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کی طرز پر پاکستان میں کبڈی کے فروغ کے لیے سپر کبڈی لیگ کا انعقاد کیا جائے گا۔ سپر کبڈی لیگ کا موجد سٹرابری سپورٹس منیجمنٹ ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے قائم ہوا ہے۔ سٹربری سپورٹس مینجمنٹ کھیلوں کے فروغ کے لیے اپنی طرز کا منفرد ادارہ ہے جس نے روایتی کھیلوں کے فروغ کے لیے کام شروع کیا ہے جس کی بنا پر اسے بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ سٹرابری سپورٹس مینجمنٹ نے اس بات کا بیڑا اٹھایا ہے کہ پاکستان کے روایتی کھیل کبڈی کے فروغ کے لیے ملک میں پہلی کبڈی لیگ کا انعقاد کرائیں گے۔ اس سلسلہ میں ہماری سٹرابری سپورٹس مینجمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حیدر علی داود خان سے خصوصی نشست ہوئی۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے تاہم ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو ایسے مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے جس کی بنا پر وہ پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔ ہمارے ادارے نے اس بات کا بیڑا اٹھایا ہے کہ پاکستان کے روایتی کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کیا جائے اس میں ہم نے کبڈی کے کھیل کو اپنایا ہے جس کے شائقین کی تعداد کرکٹ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ہم کھیل کی ترقی کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی حالت زار کو بھی بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کبڈی ورلڈ کپ کے ساتھ ساتھ کبڈی لیگ کے مقابلوں کا انعقاد کرا کے اپنے کھلاڑیوں کو کھیل کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں پہلی کبڈی لیگ کا انعقاد کر کے اپنے کھلاڑیوں کو یہ مواقع فراہم کریں۔ اس سلسلہ میں 24 مارچ سے 8 اپریل 2017ء صوبائی دارلحکومت لاہور میں پہلی سپر کبڈی لیگ کا انعقاد کرایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ایڈیشن میں چھ ٹیمیں شامل ہونگی جنہیں پاکستان کے مختلف شہروں کے ناموں سے منسوب کیا جائے گا۔ ہم نے دس سال کے پروگرام کے تحت اس لیگ کا فارمیٹ بنایا ہے۔ جو بھی فرنچائز کسی ٹیم کو خریدے گی وہ دس سال تک اسکے تمام رائٹس کے مالک ہوگی۔ حیدر علی داود خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کبڈی لیگ کرانے کا مقصد اس کھیل کی ترقی کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی معاشی حالت کو بھی بہتر کرنا ہے۔ کبڈی لیگ سے ہمارے روایتی کھیل کو ترقی ملے گی۔ مستقبل کے ایونٹس میں پاکستان کبڈی لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ پہلے سال صرف پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل کرنے کا مقصد اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو کھیل کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ حیدر علی داود کا کہنا تھا کہ پہلے ایڈیشن کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا لیکن ہم نے انہیں اگلے ایڈیشن کے لیے کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کبڈی لیگ کے انعقاد سے پاکستان میں بین الاقوامی کھیلوں کی واپسی کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔ ملک میں سکیورٹی کے حالات نے پاکستان سے بین الاقوامی کھیلوں کی سرگرمیاں چھین لی تھی انہیں واپس لانا ہمارا مقصد ہے۔ کبڈی لیگ میں شریک کھلاڑیوں کو معقول معاوضہ ملے گا۔ ہر ٹیم دس کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی جبکہ چار ریزرو کھلاڑیوں کے علاوہ دو آفیشلز جن میں ایک کوچ کم منیجر اور ایک فزیو ہوگا۔ ہر ٹیم کے کھلاڑیوں کو تین مختلف کیٹگریز جس میں پلاٹینم، ڈائمنڈ اور گولڈ میں تقسیم کیا جائے گا، لیگ کی جو چھ ٹیمیں بنائی جائیں گی ان کے کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا بھی جلد آغاز ہوگا۔ جو باصلاحیت کھلاڑی ماضی میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکے ہیں انہیں اس لیگ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد اس سلسلہ میں ملک کے مختلف شہروں میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا آغاز کر دیا جائے گا جس میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کی فہرست تیار کر کے فرنچائزر کو دی جائے گی کہ وہ اپنی ٹیموں کے انتخاب کے لیے اس فہرست سے فائدہ اٹھائیں۔ حیدر علی داود کا کہنا تھا کہ اس لیگ کے کامیاب انعقاد سے کارپوریٹ سیکٹر کا بھی اعتماد بحال کیا جائے گا، مختلف کمپنیوں کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے جن کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں جو کافی حوصلہ افزا ہیں۔ تمام معاملات کو صاف اور شفاف رکھنے کے لیے ہر کمپنی کا نمائندہ اس میں شریک ہوگا۔ حیدر علی داود کا کہنا تھا کہ پاکستان کبڈی لیگ کے پہلے ایڈیشن کے لاہور میں انعقاد کے لیے سپورٹس بورڈ پنجاب نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے جس پر ہم سپورٹس بورڈ انتظامیہ کے مشکورہیں۔ ایک سوال کے جواب میں آپ لوگ کبڈی لیگ کرائیں گے تو اس سے پاکستان کبڈی فیڈریشن کو کیا فائدہ ہوگا اس پر حیدر علی داود کا کہنا تھا کہ پاکستان کبڈی فیڈریشن کو بھی ان کی سروسز کے عوض ادائیگی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس لیگ میں جہاں قومی کھلاڑیوں کو مواقعے میسر آئیں گے وہیں پر کبڈی کے آفیشلز جن میں امپائرز اور ٹیکنیکل سٹاف شامل ہیں ان کا بھی فائدہ ہوگا۔ پاکستان کبڈی لیگ کے ذریعے ہم اپنے ان لیجنڈ سابق کھلاڑیوں کو بھی سامنے لائیں گے جنہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کھیل کے ذریعے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ کبڈی لیگ سے ملک کے نوجوانوں کو کھیل کی طرف راغب کرنے اور ہماری دعا ہے کہ پاکستان کا سوفٹ امیج متعارف کرانے کے لیے کبڈی لیگ کا انعقاد کرانے جا رہے ہیں اﷲ تعالی ہمیں اس میں کامیاب و کامران کرئے کیونکہ اس سے پاکستان کا دنیا میں اعتماد بڑھے گا۔