حافظ محمد عمران
دو ہزار سولہ پاکستان کے دو عظیم کرکٹرز کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ پہلے لٹل ماسٹر حنیف محمد کا انتقال ہوا اور پھر دسمبر میں امتیاز احمد بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ امتیاز احمد کا شمار پاکستان کرکٹ کے ابتدائی سپر سٹارز میں ہوتا ہے وہ اپنے پورے کیرئیر میں غیر متنازعہ رہے اور بھرپور انداز میں اپنے کرکٹ کیرئیر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ وہ ایک حقیقی وکٹ کیپر بلے باز تھے۔ وہ ہر قسم کی پچ پر ہر طرح کی باولنگ کیخلاف رنز کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وکٹوں کے پیچھے بھی وہ ایک محفوظ قلعہ سمجھے جاتے تھے۔ امتیاز احمد اور فضل محمود نے ملکر اتنے شکار کیے کہ کاٹ امتیاز بولڈ فضل کا حملہ ضرب المثل بن گیا۔ انہوں نے پاکستان کی طرف سے اکتالیس ٹیسٹ میچوں کی 72 اننگز میں 2079 رنز تین سینچریوں اور گیارہ نصف سینچریوں کی مدد سے 28•29 کی اوسط سے سکور کیے۔ 209 انکا بہترین سکور تھا۔وکٹوں کے پیچھے 77 کیچز اور سولہ سٹمپ بھی انکے کریڈٹ پر ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں امتیاز احمد نے 180 میچوں کی تین سو دس اننگز میں دس ہزار تین سو اکیانوے رنز 37•37 کی اوسط سے بائیس سینچریوں اور پینتالیس نصف سینچریوں کی مدد سے سے سکور 300 ناٹ آوٹ انکا بہترین سکور تھا۔ وکٹوں کے پیچھے ان میچوں میں وہ 322 میچز اور 82 سٹمپ کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ امتیاز احمد ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی ابتدائی فتوحات کا اہم کردار رہے ہیں۔ ویزلے اپنی کتاب میں امتیاز احمد کے بارے لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ فاسٹ باولرز کو کھیلتے ہوئے بہت دلیری کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان سے بہتر "ہک شاٹ" کسی کو کھیلتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں انگلینڈ کیخلاف 98 رنز پر آوٹ ہوئے پویلین جا رہے تھے تو کمنٹیٹر نے کہا کہ امتیاز دو رنز کی کمی سے سینچری مکمل نہ کرنیکے باوجود مسکراتے ہوئے پویلین لوٹ رہے ہیں۔ جولائی 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کیبعد آسٹریلین سروسز اور انگلینڈ کے مابین وکٹری ٹیسٹ کھیلے گئے۔ آسٹریلین سروسز کی یہ ٹیم پھر برصغیر آئی۔ اس ٹیم کیخلاف اسلامیہ کالج لاہور کے سترہ سالہ فرسٹ ائیر کے طالبعلم امتیاز احمد نے ناردرن انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرتے ہوئے تھری فگر اننگز کھیلی۔ 1948 میں انگلینڈ اور بھارت کو شکست دینے والی ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو ویکس، جارج ہیڈلی اور والکاٹ جیسے گیند بازوں کیخلاف سینچری سکور کر کے اپنی اہلیت ثابت کی۔ 1951 میں پنڈت نہرو کی درخواست پر امتیاز احمد پرائم منسٹر آف انڈیا الیون کیطرف سے کھیلنے کے لیے بھارت گئے وہاں انہوں نے کامن ویلتھ ٹیم کیخلاف ٹرپل سینچری سکور کرنیکا اعزاز حاصل کیا۔ کسی بھی غیر ملکی ٹیم کیخلاف برصغیر کے کھلاڑی کی یہ پہلی ٹرپل سینچری تھی۔ 1952 میں جب پاکستان کی ٹیم ٹیسٹ کا درجہ حاصل کرنے کیبعد بھارت کے دورے پر گئی تو ابتدائی دو ٹیسٹ میچوں میں حنیف محمد نے وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دیے تیسرے ٹیسٹ میچ میں امتیاز احمد کو موقع دیا گیا اسکے بعد پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1955 میں انہوں نے نیوزی لینڈ کیخلاف آٹھویں نمبر پر ڈبل سینچری سکور کرنیکا اعزاز بھی حاصل کیا۔