وزیراعظم نوازشریف نے اس عندیہ کا اظہار کیا کہ معاشرے کوکتاب کی طرف مائل کرنا درحقیقت شعور اور پختگی کے ساتھ معاشرے میں تحمل پیدا کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس معاشرے سے کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہو جائے وہاں سے ذہنی بالیدگی کی بجائے بے سمتی اور بے گھری جیسے عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں اور دنیا میں سب سے مشکل سفر گھر سے گھر تک کا سفر ہے۔ کسی شاعر نے کہا....
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ عمر بھر چلے اور گھر نہیں آیا
حضرت واصف علی واصف کا ایک قول ہے کہ ”دیکھو ہم نے زندگی عام رکھنی ہے اور صرف خیال عظیم رکھنا ہے“۔ خیال کی عظمت کےلئے ذات کی اصلاح بہت ضروری ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان مشاہداتی قوت سے خیروشر کی حقیقت کو سمجھے دنیا کے اسرارورموز اس پر تہہ در تہہ کھلتے چلے جائیں اور یہ اسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ ہم بے گھری اور بے سمتی سے نکل آئیں۔ ڈاکٹر سہیل احمد نے کتاب کے ذریعہ باطن میں جھانکنے کااصول بتا دیا۔ ”داستانوں کی علامتی کائنات“ درحقیقت انسان کے اندر کا ہی عنصر ہے جب شہزادی سات سوال حاتم کے سامنے رکھتی ہے تو وہ ساتواں سال درحقیقت انسان کے اندر کی سچائی اور حقانیت کی تلاش ہیں۔ یاد رہے کہ اگر سچائی اور حق کا راستہ چھوٹ جاتا ہے تو دل کی دیواروں پر جالے اُگ آتے ہیں۔ ذہن کے دریچے زنگ آلود ہو جاتے ہیں، اشفاق احمد نے ”زاویہ“ پروگرام میں ایک مرتبہ کہا کہ ہفتے میں ایک بار ذہن و دل دماغ کی صفائی بے حد ضروری ہے۔ تاکہ پاکیزگی اور نفاست کے ساتھ دنیا کو دیکھا جا سکے اور دنیا کو نئی نظر، نئی فکر اور نئے پہلو سے دیکھنے میں کتاب نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ بدعملی اور بے علمی درحقیقت بے شعوری کا نام ہے۔ بے شعوری فرد اور معاشرے کی روح کو اس قدر گھائل کر دیتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان زخموں کی کسک بڑھتی رہتی ہے کیونکہ جسم کا زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ روح کا زخم کبھی نہیں بھرتا کیونکہ روح پر وقت نہیں گزرتا ہے۔ تب ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور وہ ہجوم میں بھی دور تنہائی ہوتا ہے۔ آس پاس لوگوں کی موجودگی کے باوجود تنہائی پنجے گاڑے انسان کا خون نچوڑنے کے درپے ہو رہی ہوتی ہے۔ آج ہم اسی درد، اضطراب، بے چینی اور تنہائی کا شکار ہیں۔ مظہرالاسلام نے ایک علامتی کہانی ”گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی“ لکھ کر اسی جذبے کی نشاندہی کی ہے۔ اکیلے پن کے خاتمے میں کتاب آپ کا دوست بن جاتی ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نغمگی تو چاہتے ہیں، لیکن انتشار کے ساتھ، شعور کے خواہش مند ہیں لیکن شور کے ساتھ جب تک ہم نغمگی اور بے نغمگی، شعور اور شور میں فرق کو نہیں سمجھیں گے کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہمارے ہاں منزل کا تصور بھی دھندلا سا ہے۔ کسی چیز کا حصول یا رسائی منزل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کا پہلا قدم ہی آپ کی منزل ہے۔ یوں نجانے آپ کتنی منزلوں سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا سفر انتہائی ضروری ہے چاہے وہ ذات کے اندر کا سفر ہو یا باہر کی دنیا کا سفر کتنے رموز آپ پر کھولتا چلا جاتا ہے۔ ....
خود سے باخبر میں ہوں
جب سے اک سفر میں ہوں
نیک عمل چاہے کمزور پڑ جائے۔ نیک خیال کمزور نہیں پڑنا چاہئے۔ نیک خیال تلاش کی طرف لے آتا ہے اور تلاش وہ کرشمہ ہے جو مطلوب کو طالب کے روبرو لے آتا ہے لیکن ہم جس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اس معاشرے میں تلاش تو ہے لیکن طالب و مطلوب نہیں ہے۔ پھر ایسے سفر کے کیا نتائج کہ سفر تو ہو منزلوںکی نشاندہی نہ ہو تلاش تو ہو طالب و مطلوب نہ ہو، طالب تو اپنی تلاش میں جنگل، بیلے اور میلے سے نکلتا ہوا اپنے اندر اتر جاتا ہے لیکن ہم نے نہ تو ذات میں اترنے کا فرق سیکھا اور جوہر تلاش سے آ شکارا ہوئے تو خود ہی سوچیئے منزل کا حصول کیسے ممکن ہو ؟ ؟ ؟