اسلام آباد+فیصل آباد+ بوریوالہ (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ+نمائندہ خصوصی + نامہ نگار) سپرےم کورٹ نے اسلام آباد کے اےڈےشنل سےشن جج کی اہلےہ کے ہاتھوں تشدد کا شکار بچی کو تلاش کر کے آئندہ بدھ کو پےش کرنے کی ہداےت کرتے ہوئے اسلام آباد پولےس کو حکم دےا ہے کہ پولےس کے اعلیٰ افسروں پر مشتمل ٹےم تشکےل دی جائے جو حقائق پر مبنی تفصےلی تحقےقاتی رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل عدالت مےں جمع کرائے۔ عدالت نے اسسٹنٹ کمشنر پوٹھوہار نشاءاشتےاق کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے ہداےت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر متاثرہ بچی کے بےان پر مبنی رےکارڈ پےش کرےں۔ عدالت نے انسانی حقوق کمشن کو ہداےت کی کہ وہ اپنی آئےنی درخواست مےں ترمےم کر کے جمع کرائے۔ عدالت نے دفتر کو ہداےت کی ہے کہ ےہ تمام درخواستےں ےکجا کر کے آئندہ بدھ کو سماعت کے لئے مقرر کرےں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی آدمی بچوں کا بنےادی حق سلب نہےں کر سکتا۔ ہم بچوں کے والدےن ہےں اگر والدےن اپنا کردار ادا نہےں کرےں گے تو ےہ عدالت اپنے اختےارات استعمال کرے گی۔ عدالت نے واضح کےا ہے کہ اس معاملے مےں کوئی شخص بھی عدالت کی معاونت کرنا چاہے گا تو اس کو خوش آمدےد کہےں گے۔ عدالت نے اےڈووکےٹ جنرل اسلام آباد کو ہداےت کی ہے کہ بچی ملنے پر اس کا فوری طور پر طبی معائنہ کرا کے رپورٹ پےش کی جائے۔ چےف جسٹس مےاں ثاقب نثار کی سربراہی مےں دو رکنی بےنچ نے ازخود نوٹس کےس کی سماعت کی۔ اےڈےشنل سےشن جج کی اہلےہ ماہےن ظفر متاثرہ بچی کی والدہ کوثر بی بی اور ان کی دوسری بےٹی مہوش عدالت پےش ہوئےں۔ اےڈووکےٹ جنرل اسلام آباد سے چےف جسٹس نے استفسار کےا کہ کےا انہوں نے رجسٹرار ہائےکورٹ کی رپورٹ دےکھی ہے اور اب تک اس معاملہ مےں کےا پےشرفت ہوئی؟ اےڈووکےٹ جنرل نے کہاکہ ڈسٹرکٹ مجسٹرےٹ اسلام آباد کی ہداےت پر پمز کے ڈاکٹرز کا مےڈےکل بورڈ تشکےل دے دےا گےا ہے جو متاثرہ بچی طےبہ کا معائنہ کر کے رپورٹ دے گا۔ چےف جسٹس مےاں ثاقب نثار نے کہاکہ ضرورت ہے کہ اس طرح کے واقعات کو روکا جائے، ایسے واقعات بد قسمتی ہےں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے عدالت کو اپنے والدانہ (پےئرےنٹل ) اختےارات استعمال کرنا پڑ رہے ہےں۔ بےٹی طےبہ کا طبی معائنہ فوری طور پر کراےا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے بنیادی انسانی حقوق کے معاملے پر راضی نامہ ہو سکتا ہے نہ والدین بچوں کو ان حقوق سے محروم کر سکتے ہیں۔ عدالت نے ڈی آئی جی کاشف عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت معاملہ مےں سچ دےکھنا چاہتی ہے اور ہمےں ہر صورت سچائی چاہئے اور شفاف تحقےقات کر کے عدالت کو آگاہ کرےں۔ چےف جسٹس کا ڈی آئی جی سے کہنا تھا کہ ہم نے آپ کو اس لےے طلب کےا تاکہ پولےس کے اعلیٰ افسران کی ٹےم تشکےل دےں آپ کو کتنا وقت چاہئے ڈی آئی جی نے کہا کہ دو ہفتوں کا وقت دےا جائے تاہم عدالت نے اتنا زےادہ وقت دےنے سے انکار کر دےا۔ ڈی آئی جی کاشف عالم نے عدالتی استفسار پر بتاےا کہ طیبہ کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔ تاہم پولیس ٹیم جڑانوالہ میں موجود ہے اور مقامی نمبردار نے بھی یقین دہانی کرائی ہے جلد بچی پولیس کے حوالے کر دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر والدین بچی پر تشدد کے معاملہ سے دستبردار ہو گئے ہیں تو سپریم کورٹ بچوں کا والدین ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ ماہین ظفر نے عدالت کے روبرو کہا کہ انہیں عدالتی نوٹس رات کو تاخیر سے ملا اس لئے وکیل کرنے کی مہلت دی جائے۔ عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے وکیل کرنے کے لئے آئندہ سماعت تک مہلت دے دی۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالر¶ف کو ہدایت کی کہ بچی کے برآمد ہونے پر اس کا طبی معائنہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ان کی میڈیا میں آنے والی تصاویر اور جسم کا مکمل طبی معائنہ کرنے کے لئے ہر قسم کے آلات کی مدد لی جائے اور کوئی پہلو مبہم نہیں رہنا چاہئے اور اگر تصاویر کا فرانزک جائزہ بھی کرانا پڑے تو کیا جائے۔ اس موقع پر حقوق انسانی کمشن کے وکیل طارق محمود نے کہا کہ ملک میں بچوں کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں لیکن پنجاب حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے اچھا قانون بنایا ہے۔ اس موقع پر عدالت میں تشدد کا شکار بچی کی والدہ ہونے کی دعویدار 2 خواتین پیش ہوئیں۔ کوثر بی بی کا کہنا تھا کہ بچی ان کی ہے جبکہ فرزانہ بی بی کا کہنا تھا کہ ان کی بچی بھی کچھ سال قبل گم ہو گئی تھی۔ انہیں خدشہ ہے یہ بچی ان کی ہے جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملہ پر بھی تفتیش کریں اگر بچی کی ولدیت ثابت نہ ہو سکی تو ڈی این اے کروایا جائے گا۔ دوسری جانب لاپتہ بچی اور اس کے والدین کی تلاش میں پولیس نے فیصل آباد میں متعدد جگہوں پر چھاپے مارے‘ اسلام آباد پولیس نے طیبہ کی پھوپھی پٹھانی بی بی کے گھر میں چھاپہ مارا۔ دوسری جانب پولیس نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی ہے۔پولیس کی کیس تحقیقات مکمل کرنے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت کی استدعا عدالت نے مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی مہلت نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران تو شواہد ہی ضائع ہوجائیں گے۔ چیف جسٹس نے پولیس کی جانب سے بچی طیبہ کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود بچی کو کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تلاش کیا کرائسسز بھی گئے بچی کا پتہ نہیں چلا۔ آئندہ سماعت پر پیش کر دی جائے گی۔ پولیس بچی کو تلاش کر رہی ہے۔ طیبہ کے حوالے سے ایک خاتون نے اعلیٰ کیا کہ وہ اس کے والدہ ہے۔ جبکہ دیگر افراد اس کے رشتہ دار ہیں۔ ان کی معاملے میں صلح ہو چکی ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تھانہ آئی نائن پولیس کو ہدایت کی کہ ان سب دعویداروں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے اور ان سب کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ پولیس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جڑانوالہ گاﺅں کے نمبردار نے طیبہ کے والد کی تحریری تصدیق کر دی ہے۔علاوہ ازیں بوریوالہ کے محنت کش ظفر نے بھی بچی کا والد ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے جس کے مطابق بچی کا نام طیبہ ہیں رمضاناں ہے۔
طیبہ کیس