عالمی شہرت یافتہ، کلاسِیکی موسیقی کے گلوکار، موسیقار، اُستاد امانت علی خان مرحوم کے چھوٹے بھائی اور اُستاد حامد علی خان کے بڑے بھائی ”پٹیالہ گھرانہ“ کے اُستاد فتح علی خان 82 سال کی عُمر میں انتقال کر گئے ہیں5 جنوری کو اُنہیں مومن پورہ لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک بھی کردِیا گیا ہے۔ خان صاحب پاکستان اور بیرونِ پاکستان اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کے گھرانے اُن کے "School Of Thought" ( مکتبِ فکر ) کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ”گوالیارگھرانا “ ”متھرا گھرانا “ اور ”شام چوراسی گھرانا “ کی طرح ”پٹیالہ گھرانا “ بھی ایک گھرانا ہے۔ 1947ءمیں اُستاد فتح علی خان کے بزرگ اور خاندان کے دوسرے لوگ مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ”پٹیالہ“ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔
پٹیالہ کا ”راج گھرانا “ (سِکھ راجا ﺅں کا خاندان) کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کا دلدادہ اور سرپرست تھا۔ اُستاد فتح علی خان نے پوری دُنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام روشن کِیا اُن سے پہلے اُن کے بڑے بھائی (مرحوم) اُستاد امانت علی خان نے بھی اُستاد فتح علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہ¿ امتیاز، تمغہ¿ خدمت، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز کے علاوہ کئی دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ "Classic " کے لغوی معنے ہیں ” اعلیٰ درجے کا ، نمایاں طور پر قابلِ شناخت اور مثالی ہے ۔ قدیم یونانی اور لاطینی ادب، فنون، ثقافت اور سادہ متناسب انداز و اسلوبِ موسیقی سے کو بھی کلاسِیک ہی کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں کلاسِیکی موسیقی سے مُراد قدیم ہندوستانی موسیقی ہے۔ کلاسِیکی موسیقی ہندو مذہب میں عبادت کا حِصّہ ہے ۔ چشتِیہ سِلسلے کے ولی حضرت نظام اُلدّین اولیائؒ کے مُریدِ حضرت امیر خسرو (1243ء 1325ئ)، فارسی، ہندی، برج بھاشا کے شاعر اور ”راگ وِدیا“ ( علمِ موسیقی) میں کامل تھے۔ اُنہوں نے ایرانی اور ہندوستانی موسیقی کی آمیزش سے کئی راگ تخلیق کئے اور راگنیاں بھی ستار امیر خسرو کی ہی ایجاد ہے۔
گوالیار کے راجا رام چند کا درباری گائیک براہمن زادہ رام دینو۔ مُغل بادشاہ اکبر کے دربار میں ”شہنشاہِ موسیقی“ اور ”میاں تان سین“ (سُروں کا سِپہ سالار) کا خطاب پایا اور اُس کے نو رتنوں میں بھی شامل ہوگیا۔ بھارت میں اب بھی کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کو ”بھگوان کا روپ“ سمجھا جاتا ہے مَیں نے کئی سال پہلے آل انڈیا ریڈیو پر اُستاد بڑے غلام علی خان کا انٹرویو سُنا تھا اُن سے پوچھا گیا تھا کہ ”آپ مسلمان ہیں، پاکستان کیوں نہیں گئے؟“ تو خان صاحب نے کہا تھا کہ ”ہم ایک بار پاکستان گئے تھے۔ سرحد پر پہنچے تو سرحد پر پاکستانی اہلکاروں نے آپس میں کہا کہ ” لو جی ! میراثیوں کا گروہ بھی آگیا“ اُستاد بڑے غلام علی خان نے کہا کہ ”کچھ دِنوں بعد ہم بھارت واپس آگئے، یہاں ہمیں بھگوان کا روپ سمجھا جاتا ہے“
یورپ میں "Popular Music" المعروف "Pop Music" ( پاپ میوزک) 1750ءمیں ایجاد ہُوا ۔ پاپ گلوکاروں اور موسیقاروں کو ” راگ وِدیا“ سے واقفیت نہیں ہوتی۔ ”سرگرم “ سے بھی واقفیت نہیں ہوتی صِرف شور شرابا ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بھی ”پاپ موسیقی“ کا رواج ہے ہندی زبان میں ”پاپ“ کا مطلب ہے گُناہ، بھارت اور پاکستان میں کلاسِیکی موسیقی کے قدر دان "Pop Music" کو ” گُناہ“ کے معنوں میں ”پاپ موسیقی“ کہتے ہیں۔
مَیں نے لڑکپن میں فلم ”تان سین“ دیکھی تھی۔ کلاسِیکی گائیک کُندن لعل سہگل ہِیرو تھے یعنی تان سین مَیں نے دیکھا کہ میاں تان سین نے اکبر کے دربار میں ” دیپک راگ“ گایا ۔ بول تھے....
” جگ مگ،جگ مگ دِیا جلاﺅ ،دِیا جلاﺅ !“
مَیں نے دیکھا کہ دیپک راگ گانے سے دربار اکبری کے بُجھے ہُوئے چراغ جل اُٹھے اور اُس کے ساتھ ہی راگ کی تپش سے تان سین کا جسم بھی جُھلس گیا ۔ وہ گاﺅں چلا گیا وہاں اُس کی محبوبہ ( تانی ) نے راگ ملہار گایا ۔ بارش شروع ہوگئی اور تان سین صحت مند ہوگیا۔ ہمارے یہاں کلاسِیکی موسیقی کو رُوح کی غذا کہا جاتا ہے۔ ہمارے اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانوں کے صُوفی شاعروں کی شاعری بھی رُوح کی غذا ہے یہ شاعری ”عِلم عروض “ کے مطابق کی گئی جذبوں کی شاعری آج بھی زندہ ہے لیکن یورپ کی نقل میں "Blank Verse" ( قافیہ اور ردیف کے بغیر شاعری ) جذبوں کو بیدار نہیں کرتی اِسی طرح ہم جمہوریت کو بھی "Classic Democracy" اور "Pop Democracy" میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
جِن ملکوںمیں اعلیٰ درجے کی اور متناسب انداز و اسلوب کی مِثالی جمہوریت نہ ہو اور وہاں "Democratic Mafia" کا راج ہو اُسے تو ”پاپ جمہوریت“ ( Pop Democracy) ہی کہا جائے گا ۔ ہمارے یہاں بھی ”پاپ جمہوریت“ کا پاپ گُنا) اُن حکمرانوں کی گردنوں پر کیوں نہیں ہوگا ، جنہوں نے پاکستان کے 60 فی صد ”جمہور“ کو غُربت کی لکِیر سے نیچے دھکیل کر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔
مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے دولت جمع نہیں کی تھی ۔ جب وہ وکالت کرتے تھے تو اپنی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ باقی مقدمات اپنے دوست ، سینئر وُکلاءاور شاگردوں میں تقسیم کر دِیا کرتے تھے۔ قائداعظمؒ نے وکالت کے ذریعے جو جائیداد بنائی تھی، اُنہوں نے اُس کا ٹرسٹ بنا کر قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔ گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے قائداعظمؒ نے اپنے چھوٹے بھائی احمد علی جناحؒ کی مدد کرنے سے انکار کردِیا تھا وہ مایوس ہو کر بمبئی واپس چلا گیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قیام پاکستان کے لئے اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تھی لیکن قائداعظمؒ نے انہیں مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔
نئی دہلی کے "Diplomatic Enclave" چانکیہ پوری (چانکیہ کا دروازہ ) میں جِس بنگلے میں پاکستان ہائی کمشن کے دفاتر ہیں وہ بنگلہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی ملکیت تھا اور اُنہوں نے وہ بنگلہ حکومتِ پاکستان کو تحفے کے طور پر دے دِیا تھا ۔ قائدِ مِلّت جب شہید ہُوئے تو اُن کی جرابیں پھٹی ہُوئی تھیں۔ اگر اُنہیں حکومت کرنے کے لئے کچھ اور مُدّت مِل جاتی تو پاکستان کو حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کیوں نہ بننے کا موقع مِلتا؟۔ پاکستان میں کلاسیکی جمہوریت کا بول بالا ہو رہا ہوتا لیکن ” پاپ جمہوریت“ کی رسّی دراز ہونا تھی۔ علاّمہ اقبالؒ کو اپنے وجدان سے عِلم ہوگیا تھا کہ اُن کے پاکستان میں بہت جلد ” پاپ جمہوریت “ کا دَور شروع ہو جائے گا ۔ اُنہوں نے پیشگی بتا دِیا تھا کہ ....
” جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے!“
جو بندے ” جمہور کے ووٹوں “ سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گنتی تو انہی کی ہوتی ہے ۔
اُستاد فتح علی خان تو با کمال تھے ۔ اپنے کمالات دکھا کر خالقِ حقیقی سے جا مِلے لیکن ہم ”پاپ جمہوریت “ میں زندہ ہیں ہم کیا کریں ؟ ۔ حضرت داغ دہلوی تو یہ کہہ کر رُخصت ہوگئے تھے کہ....
” با کمالوں کی تری راہ میں ، گِنتی کیا ہے ؟“
”کلاسِیکی جمہوریت “ اور پاپ جمہوریت؟
Jan 07, 2017