چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور کے ہسپتالوں کی حالت زار پر از خود نوٹس کیس کی لاہور رجسٹری میں سماعت کی۔ سماعت کے دوران محترم چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تعلیم اور صحت پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور تعلیم بہتر نہ ہوئی تو اورنج ٹرین روک دوں گا۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں دوائی تک میسر نہیں، شام کے وقت سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز پرائیویٹ کلینک جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز اپنے کلینک بند کریں۔ گزشتہ روز لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ فاضل چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ وہ سب میٹنگ کر کے دس دن میں ایس او پی بنا کر دیں۔ ہمارا مقصد آپکو گرانا نہیں بلکہ کندھا فراہم کرنا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے سے متعلق پالیسی بنا کر 15 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔
تعلیم اور صحت کے شعبے، پنجاب ہی نہیں دوسرے صوبوں میں بھی ابتر حالت میں ہیں۔ ہسپتالوں کی عمارتیں خستہ ہیں، صفائی اور سیوریج کا نظام ناقص‘ غریبوں اور مستحق مریضوں کےلئے فراہم کی جانے والی دوائیں، بازار میں فروخت ہو جاتی ہیں، سپیشلسٹ ٹیچنگ کالجوں میں ایک آدھ لیکچر دینے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ سینئر سرکاری ڈاکٹروں کی ساری دلچسپی اپنے کلینکوں تک محدود ہوتی ہے۔ انکی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جہاں تک اورنج ٹرین روکنے کا تعلق ہے اول تو اسے شروع ہی نہ ہونے دیا گیا اوراگر کام شروع ہو گیا ہے تو اسے مکمل ہونے دیا جائے، درمیان میں روکنے سے کھربوں کا نقصان ہو گا، ٹریفک کے سنگین مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ لہذا روکنے کی بجائے اسے جلد مکمل کیا جائے۔ البتہ صوبائی حکومت پر زور دیا جائے، کہ وہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کی حالت بہتر بنانے کےلئے ضروری فنڈز مہیا کرے، جہاں سے بھی ملیں۔ دراصل ساری خرابیاں ناقص ٹاﺅن پلاننگ کے باعث پیدا ہوئی ہیں اس سے صرف صحت کے شعبہ میں ہی خرابیاں پیدا نہیں ہوئیں بلکہ بتدریج بڑھتی ہوئی آبادی عدل گستری کیلئے بھی بے شمار مسائل پیدا کرنے کا باعث بنی ہے جس کی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ ہفتے نشاندہی بھی کی ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی برا حال ہے۔ اس صورتحال میں فاضل چیف جسٹس کو عدل گستری میں اصلاح احوال پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ انکی جانب سے مفاد عامہ کے دیگر شعبوں میں بھی اصلاح احوال کےلئے فکر مندی قابل ستائش ہے۔
ادارہ جاتی اصلاح احوال کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی فکرمندی
Jan 07, 2018