امریکی دھمکیاں اور حکومتی ردعمل

آخر مشکل وقت میں سیاست دان ہی کام آتے ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر دفاع غلام دستگیر کو اس سے پہلے خارجہ اور دفاعی امور پر ایسے کھل کر بولتے نہیں سنا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کی طرف سے امریکہ کی دھمکیوں کو جس طرح مسترد کیا گیا ہے وہ عوامی جذبات کا عکاس ہے اور قابلِ تحسین بھی۔ یہ وہی وزیر خارجہ ہیں جن کی حکومت کے پہلے چار سال ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی تھی اور انکی جگہ عسکری سفارتکاری زوروں پر تھی۔ اسی طرح یہ وہی وزیر دفاع ہیں جن کو فوج کے سربراہ سے ملاقات کا شرف تو بخشا گیا مگر بقول انکے خود وہ دفاعی امور میں کھڈے لائن لگائے گئے جس کو انہوں نے انگریزی میں Sidelined کہا۔ امریکہ جیسے طاقتور اور جمہوری ممالک اور پاکستان جیسے کمزور اور نیم جمہوری ممالک کے درمیان تعلقات کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ جب نیم جمہوری ممالک دباو¿ کا شکار ہوتے ہیں تو وہاں سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کو عارضی طور پر سرکش گھوڑے کی لگام تھما دی جاتی ہے۔ پاکستان کو بھی اندرونی سیاست کے اعتبار سے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی بمع وفاقی کابینہ، پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے بیانات سے واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام امریکہ کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں۔
ایسے مشکل وقت میں پاکستانی قوم کا متحد ہونا انتہائی ضروری اور قابل تحسین ہے مگر اپنے ردعمل اور اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر ضرورت سے زیادہ پراعتمادی بھی ٹھیک نہیں۔ خاص کر جب ایسی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں عوام کی منتخب حکومت اور وفاقی کابینہ کے دائرہ کار و اختیار سے عملی طور پر باہر ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اور حکومت کون سی پالیسی کے پیچھے متحد ہیں۔ بدقسمتی سے جب حکومتی فیصلے مشورے، مرضی، منظوری اور علم میں لائے بغیر خارجہ اور دفاعی امور سے متعلق پالیسی سازی اور اس پر نامعلوم طریقوں سے عملدرآمد کیا جاتا ہے تو پھر ایسی پالیسیوں کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور ایسے میں معیشت اور سلامتی سے جڑے ان پالیسیوں کے سنگین نتائج سے بچنے کیلئے قوم کے پاس یک زبان اور متحد ہو جانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ ویسے بھی ایسے عوامی اتحاد و اتفاق کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عوام اور اسکی نمائندہ حکومت ان پالیسیوں سے بھی مکمل اتفاق کرتی ہے۔ جمہوری ممالک میں عوامی سپورٹ اور اتحاد کا اظہار انکی منتخب حکومت کی پالیسیوں اور بیانات میں ہی نظر آتا ہے۔ کوئی ادارہ عوامی حکومت کو بائی پاس کر کے براہ راست عوام کی حکومت کا دعویدار نہیں بن سکتا۔ عوام اداروں کا اتنا ہی احترام کرنے کے پابند ہیں جتنا احترام ادارے آئین اور آئینی حکومت کا کرنے کے پابند۔ افسوس ہے کہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں قومی سلامتی کیلئے پیدا ہونےوالے خطرات کو دیکھتے ہوئے عوام بار بار ان پالیسیوں اور انکے پالیسی سازوں کی حمایت میں کھڑے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ریاست بچانے کیلئے عوامی سیاست کو قربان کر دیا جاتا ہے اور پالیسی سازی کایہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر دفاع غلام دستگیر جتنا بھی زوردار بیان یا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قوم کا مو¿قف پیش کریں، عالمی سطح پر ان بیانات اور مو¿قف کو اتنی ہی پذیرائی ملے گی جتنی عزت اور احترام ان حکومتی عہدیداروں کو پاکستان کے اپنے ادارے دیتے ہیں۔ گذشتہ چار سال کے دوران اس ملک میں ریاست بچانے کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا رہا اسکے بعد ہمارے وزیراعظم ، وزیر خارجہ یا وزیر دفاع کے امریکی دھمکیوں کے جواب میں بیانات کتنے اثر انگیز ہونگے جس طریقے سے سیاسی اور مذہبی دھرنوں کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کیا گیا اور مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کی ایک خوفناک تصویر پیش کی گئی اسکے بعد ہماری منتخب حکومت یا پارلیمنٹ جیسے اداروں کی طرف سے امریکہ کو دئیے گئے جواب کو کون سنجیدگی سے لے گا۔ جب تک عوام کی منتخب حکومتیں عوام کی امنگوں کیمطابق معاشی، خارجی اور دفاعی پالیسیاں بنانے میں آزاد نہیں ہوں گی اور اس حوالے سے پاکستانی عوام کو جوابدہ نہیں ہونگی، اس وقت تک پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات میں یونہی اضافہ ہوتا رہے گا اور ہم ایسی غلط پالیسیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جائینگے۔ امید ہے کہ امریکہ خود بھی اپنے روایتی عسکری سطح کے تعلقات پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان کی جمہوری حکومتوں سے ہی معاملات طے کرنا سیکھنا شروع کریگا۔ ماضی میں امریکہ نے ہمیشہ فوجی حکمرانوں کو اپنے علاقائی مفادات کےلئے استعمال کیا اور انکے اقتدار کو دوام بخشا حتیٰ کہ جمہوری ادوار میں بھی امریکی حکومتوں نے پاکستان میں منتخب حکومتوں اور پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست قومی سلامتی کے اداروں سے رابطوں کوترجیح دی۔
اگر آج امریکہ پاکستان کی پالیسیوں پر نالاں ہے تو اسکی ایک وجہ وہ خود بھی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی میڈیا سے حالیہ گفتگو میں مذکورہ حقائق اور تضادات کا کھلا اعتراف ہے جس میں انہوں نے نہ صرف پالیسی سازی میں اپنی سیاسی حکومت کی بے بسی کا اعتراف کیا بلکہ "نامعلوم" قوتوں کو خبردار بھی کیا کہ اگر انکے غیر جمہوری ہتھکنڈے نہ رکے تو پھر وہ بہت سے "راز" افشا کرنے پر مجبور ہونگے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے آنیوالا وقت مشکل سے مشکل تر ہوتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ اور اسکے خیراتی ادارے تو پہلے ہی پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے محض بیان بازی اور لفظوں کی کشیدہ کاری سے کام لیتے تھے، اب جن دو ممالک پر اپنا انحصار بڑھا رہے ہیں وہ دو ممالک تو لفظ جمہوریت سے بھی ناآشنا ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ایسے نئے حالات میں ہم اور ہمارے منتخب ادارے حقیقت میں سیاست کی بجائے ریاست بچانے میں لگ جائینگے۔ آج اگر سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے پر ہوتے تو وہ اپنے ماضی سے جڑی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ہٹلر نما سیاستدان کے بالمقابل ایک جمہوری چہرے کے طور پر کھڑے ہوتے۔ جب کمزور حکومتیں غلط پالیسیوں پر اپنے اداروں کی جواب طلبی نہیں کر سکتیں تو پھر اس مشہورِزمانہ "خلا" کو کسی نے تو پ±ر کرنا ہوتا ہے۔اس ملک میں آئین اور قانون کی بجائے اقتدار کی بھینس کی ملکیت کا تعین "کمانڈ کی چھڑی" سے ہوتا ہو تو پھر امریکہ جیسے طاقتور ممالک کے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ میری "کمانڈ کی چھڑی" اور ایٹمی بٹن زیادہ طاقتور اور مو¿ثر ہے۔ جس طرح ہمارے چند دانشور حکومت کی ناقص کارکردگی کو "خلا" پیدا ہونے اور اسکو عدلیہ اور فوج کی طرف سے پ±ر کئے جانے کا جواز بناتے ہیں، اسی طرح امریکہ بھی پاکستان کے اندر اپنے ڈرون حملوں کی وجہ پاکستان کی عدم کارروائی اور اسکے باعث پیدا ہونےوالے "خلا" کو بتاتا ہے۔ خدارا ملک کے آئینی اداروں کو اپنے فیصلوں اور غلطیوں سے خود سیکھنے دیں وگرنہ پھر وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر دفاع خرم دستگیر کو عارضی طور پر بیانات کی حد تک بااختیار بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپناگریبان میں شاید درست ہی کہا کہ موجودہ حالات میں فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کا جواب دینا زیادہ مو¿ثر ثابت ہونا چاہیے۔ وہ امریکی صدر کے بیان کو مسترد ہی کر دیتے۔

مطیع اللہ جان....ازخودی

ای پیپر دی نیشن