پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سیاسی نظام1958سے یکم جنوری2018تک ایک ایسے تصور کے گرد گھومتا رہا ہے کہ جو بہت حد تک "شرک صغیر"کے قریب ہے۔ پاکستان میں اس سوچ کو فروغ دیا گیا کہ پاکستان میں وہی برسر اقتداد آ سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ،امریکہ اور آرمی ہوں۔ ذرا سوچیئے تو! کہ ایک نظریاتی مملکت میں برسر اقتدار رہنے کیلئے اللہ کریم کی مدد اور رہنمائی کے تصور کے بجائے امریکہ اور آرمی کو خدائی مدد کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔ایمان کی اس کمزوری کا شاخسانہ ہم نے گزشتہ ساٹھ سال کے دوران دیکھ لیا ہے۔ امریکہ کے زیر اثر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ 1965 اور 1971کی جنگ میں امریکہ نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا اس سے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت پوری طرح آگاہ ہیں۔ ہمیں امریکی صدرٹرمپ کی پاکستان پالیسی پر تنقید کرنے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ اس نے ساٹھ سال بعد ہمیں آنکھ کھولنے اور سوچنے کا موقعہ فراہم کیا (60سال اس لیے کہ 1947سے 1958تک پاکستان کے سیاسی نظام پر امریکی اثرات نہیں تھے)۔1958کے فوجی انقلاب(دور ایوبی) سے یکم جنوری2018تک ان ساٹھ سالوں کے دوران پاکستان عالمی سطح پر کبھی غیرت مند اور خوددار قوم کے طور پر نہ ابھر سکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرصے میں پاکستان کی تمام فوجی اور سول حکومتیں امریکہ کی حاشیہ بردار رہیں۔امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے ہم نے اپنی عزت نفس کا سودا بھی کیا اور قومی وقار کو خاک میں بھی ملائے رکھا۔ دیر آئید درست آئید کے مصداق اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سمت درست کر لیں۔ اپنی خارجہ پالیسی مسلمہ بین الاقوامی اصول کے تحت صرف اور صرف "قوم کے عظیم تر مفاد" کو سامنے رکھ کر تشکیل دیں اور اس پر ہی عمل کریں۔اسی طرح اب ہمارے سیاستدانوںا ور حکمرانوں کو آرمی کی خوشنودی اور مدد حاصل کرنے کے بجائے عوامی مفاد ہی کو مقدم رکھنا ہو گا۔ یہ امر بھی حقیقت ہے کہ ہماری آرمی کا ملک کی سیاست میں بھی بڑا اثر رسوخ رہا ہے لیکن دوسری طرف ہمارے سیاست دان ابھی "اسٹیبلشمنٹ "اور "امپائر"کے اشارے میں ہمہ وقت آرمی کی مدد اور رہنمائی کے شوقین نظر آتے ہیں۔ 2018انتخابات کا سال بھی ہے ۔ ہم سب کو عہد کرنا چاہئیے کہ ہم اپنے ایمان کو درست رکھیں گے۔ پاکستان کو چلانے کیلئے ہمارے حکمرانوں کو اللہ کی خوشنودی اور مددپر یقین رکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آرمی اور امریکہ کی مدد مانگنا "شرک صغیر"ہے بتوں کو پوجنا یا کسی کو خدا ماننا "شرک کبیر" ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برابر کسی اور طاقت یا صفت کو لانا شرک صغیر ہے۔ جب ہم یہ کہیں کہ میں دولت اور سرمایے کے بل بوتے پر ہر کام کروالوں گا یا کسی مرتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے سب کام ہو جائیں گے تو یہ شرک صغیر ہے۔ بھٹو خاندان ، مشرف اور نواز شریف کے پاس کس چیز کی کمی تھی یا ہے؟ حکمران ہونے اور دولت ہونے کے باوجود انہیںکن کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 60 سال کے دوران ہم نے اپنی دو نسلوں کا مستقبل داﺅ پر لگائے رکھا ہے۔ پاکستان کے پاس کیا کمی ہے؟اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاروں موسم، ہر طرح کی فصل، پھل،پھول اور سبزیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ سمندر، دریا ، چھیل، صحرا،پہاڑ اور معدنیات سے سرفراز کیا ہے۔مختلف کلچر،زبان اور ثقافت کا گلدستہ بنایا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کا ممتاز ترین اور اہم خطہ زمین عطا کیا ہے۔ امریکہ،برطانیہ ،روس اور چین پاکستان کے بغیر اس خطے میں کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں بنا سکتے۔پاکستانیوں کی افرادی قوت اور اجتماعی ذہانت کسی سے کم نہیں۔پاکستانی افواج کا شمار دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ عالم اسلام کی واحد جوہری طاقت ہونے کا شرف بھی صرف اور صرف پاکستان ہی کو ہے۔ امریکہ جیسے طاقتور ترین اور دنیا کی واحد سپر پاور ہونیوالے ملک کا صدر ٹرمپ اپنے ٹویٹ میں یہ اقرار کر رہا ہے کہ ہم نے پاکستانیوں سے " مات "کھائی ہے۔سوویت یونین جیسے ملک کا شیرازہ بکھرنا پاکستان کو ملائے بغیر ممکن نہ تھا۔ پاکستان نے جس طرح دہشت گردوں سے اپنی سر زمین کو پاک کیا ہے اسکی مثال تاریخ اقوام عالم میں با آسانی نہیں مل سکتی۔ذرا سوچئیے کہ کیا ایسی قوم کو دوسروں کا دست نگر ہونا چاہےیے؟ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئیے کہ اس نے ہماری سیاسی قیادت کو 2018میں سنبھلنے کا موقعہ دیا ۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ آرمی اور امریکہ کوملانے کے "شرک صغیر" سے بچنا ہے اورہمیں اپنے زور بازو کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے بہتر حکمرانی فراہم کرنی ہے۔....
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا