بقول پنجابی صوفی شاعر میاں محمد بخش، اولاد کی نوعیت بھی پھلوں اور میوہ جات جیسی ہوتی ہے لیکن انگور اور آم جیسے کچھ پھل اور بچے اپنی مٹھاس اور تاثیر کے باوصف خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ البتہ ایسی اولاد اور پھلوں کو سینچنے کے لیے والدین اور باغ بانوں کو خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ذرہ سی کوتاہی اور لا پرواہی ان پھلوں کی مٹھاس اور اولاد کی تاثیر کو یوں گہنا دیتی ہے کہ زبان پر آنے والی کڑواہٹ دل کے راستے خون تک ایسے پہنچتی ہے کہ روح بھی مرجھا جاتی ہے۔ اس بات کا عملی ادراک مجھے اپنے ایک دیرینہ دوست سے مدتوں بعد ملنے پر ہوا۔ پرسوں ایک دعوت پر ملِک سلطان سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ اونچے لمبے قد اور مردانہ وجاہت سے بھرپور ملِک سلطان ہماری محفلوں کی جان ہوا کرتا تھا۔ پھر میں ڈاکٹری کے چکر میں بیرونِ ملک چلا گیا اور نہ حلقہءیاراں رہا نہ محفلِ دوستاں۔ برسوں بعد ملنا ہوا، پہلے تو اس کے اُترے ہوئے چہرے، دھنسی ہوئی آنکھوں اور خمیدہ جسم کے باعث میں اسے پہچان ہی نہ سکا لیکن دوسری ہی نظر میں دل پر دستک ہوئی کہ یہ تو ملِک سلطان تھا جو اس قدر کامیاب سیلف میڈ آدمی تھا کہ محاورتاً نہیں فی الحقیقت دو کپڑوں میں گا¶ں سے آیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کی ساری آسائشیں اسے حاصل ہو گئی تھیں۔ ابتدائی کلمات کے بعد میں نے ذرہ ہمت پکڑ کر سوال داغا: ”یار باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن تمھارے چہرے کی وہ بشاشت اور آنکھوں کی چمک کہاں گئی جس پر ہمیں کبھی رشک آتا تھا!“ وہ بولا: ”یار ڈاکٹر، کچھ بھی نہیں بدلا۔ الحمدللہ، خدا کا دیا سب کچھ ہے۔ ڈیفنس کا بنگلہ، لمبی چمچماتی گاڑیاں، نوکر چاکر جن کا میں خواب دیکھتا تھا سب کچھ مل گیا لیکن اس دوڑ دھوپ میں نہ جانے کیا ہوا کہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا ہوں۔“ اس نے بات جاری رکھی اور میں اس کی آنکھوں کی ویرانی میں کھویا رہا۔
”یار، بیوی بچے، جن کے لیے اپنی زندگی گھُلا ڈالی، پتہ نہیں کیوں اور کیسے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ان کے لیے غیر متعلقہ سا ہو گیا ہوں۔ رات کے وقت بیٹی سے گُڈ نائٹ سنتے وقت دن بھر کا پہلا مکالمہ ہوتا ہے اور صبح کے وقت بیٹے کے ساتھ ایک ہیلو کے بعد کوئی بات نہیں ہو پاتی۔ بیوی کی سماجی سرگرمیاں اسے گھریلو ذمہ داریوں کے لیے وقت نہیں دیتیں۔ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہر کمرہ ایک الگ گھر ہی نہیں کوئی الگ محلّہ ہو گیا ہے۔ اول تو ہمیں ایک میز پر بیٹھ کر کھانا نصیب ہی کم کم ہوتا ہے اور اگر یہ اتفاق ہو بھی جائے تو ہمارے درمیان اتنے فاصلے آ گئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے اندر جھانک ہی نہیں پاتے یا شاید ہمارے درمیان اتنی اونچی دیواریں کھڑی ہو گئی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ میں نے ان کے لیے کیا نہیں کیا۔ ٹاٹوں والے سکول میں پڑھا اور انھیں ڈالروں میں فیس لینے والے سکولوں میں پڑھایا۔ اپنی بیوی کو خود سوشلائیزیشن سکھائی اور آج خود اکیلا ہو گیا ہوں۔ گرم کمرے، نرم بستر، اعلیٰ وارفع سہولیاتِ زندگی، میرے پاس کیا نہیں ہے اور میں نے اپنے بیوی بچوں کو کیا نہیں دیا!!! اس کے باوجود زندگی کا خلا ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گا¶ں کی وہ معطر فضا، چار سُو پھیلی ہریالی، کھیتوں میں محنت کرتے جوان، فطرت سے جوڑے رکھنے والے چہچہاتے پرندے، سب کچھ ہوا ہو گیا ہے۔ یہی تو وہ سب کچھ تھا جو ہمیں اپنی دھرتی، اپنی تہذیب سے جوڑے رکھتا تھا!! ہم اپنی زبان بولتے ہی نہیں تھے، سوچتے بھی اسی میں تھے۔ صبح بخیر اور شب بخیر ’Good Morning‘ اور ’Good Night‘ میں نہیں بدلا، سوچ کا دھارا ہی بدل گیا ہے ۔ “ دعوت سے واپسی پر گھر کی طرف محوِ سفر ہوئے تو میں سوچنے لگا کہ اگر یہی رویہ درست ہے تو اسے کونسی شے دیمک کی طرح چاٹ گئی۔ اس کی ساری باتیں ٹھیک تھیں۔ اس نے واقعتاً زمین سے آسمان تک کا سفر کیا تھا۔ اس پر زرّے سے آفتاب ہو جانے کی مثال صادق آتی ہے۔ اگر کامیابی پر آسائش موڈرنائیزیشن کا نام ہے تو سلطان دنیا کا کامیاب ترین انسان تھا۔ صبح بخیر اور شب بخیر ’Good Morning‘ اور ’Good Night‘ میں نہیں بدلتے، ذریعہءاظہار بدلنے سے سوچ کا دھارا ہی بدل جاتا ہے اور پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب مغربی تہذیب و افکار، مشرقی اقدار پر حاوی ہوجاتی ہیں۔ ہم پر آسائش زندگی کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کر سکیں۔ تاکہ ان کی معطر اور خیرہ کر دینے والی پوشاکیں انھیں اپنے ہم نوا¶ں میں ممتاز کر سکیں۔ تاکہ وہ مرکزِ نگاہ بنے رہیں۔ تاکہ ان کی جیبوں سے پھسلنے والا پیسہ سب کچھ ان کے قدموں میں ڈال دے۔ تاکہ وہ اپنے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کسی طرح کے احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو ڈالروں میں فیس لینے والے سکولوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی سطح کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ تاکہ انھیں عالم گیریت کے تصور کی سمجھ آ سکے۔ تاکہ وہ جدید اقتصادی تصورات سے آشنا ہو سکیں۔ تاکہ وہ معتدل روشن خیالی کا درس سیکھ لیں۔ تاکہ وہ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کر سکیں۔ تاکہ۔۔۔اپنی مادری اور قومی زبان سے انگریزی کی طرف ہجرت کرنے کے نشے میں مخمور ملِک سلطان بھول گیا کہ زبان کی تبدیلی سوچ کی تبدیلی بن کر تہذیب کے لیے زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔ سوچ کی تسخیر کا وقت وہ تھا جب وہ اپنے بچوں کو الف لیلیٰ اورعمرو عیار کی کہانیاں سنانے کے بجائے سوپر مین اور سنڈریلا کے قصے سنایا کرتا تھا۔ اے کاش کہ کبھی اس نے اُس وقت اپنے بچوں کو صوفی غلام مصطفیٰ تبسم سے بھی متعارف کروایا ہوتا۔ کاش کبھی ولیم بلَیک کی نظمیں رٹوانے کے بجائے اقبال کی منظومات پڑھائی ہوتیں۔ کاش کبھی سوچا ہوتا کہ تہذیبوں کی سرحدیں نظر نہیں آتیں۔ معلوم نہیں ہوتا کہ کب زبان گنّے کے رس کے بجائے کوکاکولا کی رسیا ہو جاتی ہے۔ ملِک سلطان جان ہی نہ سکا کہ اس کے بچے کب اپنی روایات سے بے نیاز ہو کر اس علاقہ غیر میں پہنچ گئے۔ اس کے پاس ’ممنوعہ‘ کا کوئی ایسا بورڈ نہ تھا جسے پڑھ کر اس کے بچے تہذیبوں کی غیر مرئی حدِفاصل کو پہچان پاتے۔
ہمارے بچوں کو بھی اپنی روایات سے آشنائی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ہمارا ادب پڑھایا جائے۔ اردو اور مقامی زبانوں کی ترویج کا اہتمام کیا جائے اور والدین میں اس حقیقت کے ادراک کو فروغ دیا جائے کہ آئندہ نسلوں کو اپنی روایات کا امین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ان کی اپنی زبانوں میں مہارت ہو اور متعلقہ ادب سے دلچسپی ہو۔ آج کا نوجوان نظیر اکبر آبادی کو پڑھ لے تو اسے یہ بتانے کی ضرورت نہ ہو گی کہ برِ صغیر کے عمومی رسم و رواج کیا ہیں۔ غالب و میر کا مطالعہ عام ہو جائے تو رنج سے خوگر ہو جانے والے انسانوں کا رنج بھی مٹ جائے۔ نطشے کے فوق البشر کے بجائے اقبال کا فلسفہ¿ خودی پڑھایا جائے تو ہماری نسل بھی شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اٹھانے کے بجائے کشکول توڑ کر غریبی میں نام پیدا کرنے کے قابل ہو جائے۔ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد جیسے ادباءسے ہمارے بچے آشنا ہوں تو انھیں بھی اپنے اندر جھانکنے کا فن آئے۔ کبھی حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کو پڑھیں تو معلوم ہو کہ گداز خیالستان کیسے ہوتے ہیں۔ کبھی نسخہ ہائے وفا سے دیپ جلائیں تو پتہ لگے کہ رومان کے بطن سے انقلاب کیسے جنم لیتا ہے۔ حبیب جالب کا مطالعہ کریں تو جانیں کہ اعلانِ بغاوت کیسے بلند کیا جاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ملِک سلطان بہت محنتی تھا اور اس نے اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر دن رات محنت کی لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ سیلف میڈ آدمی کے گھر دھوپ بھی اس وقت آتی ہے جب دن بھر کا سورج تھک ہار جاتا ہے ایسے میں اگر گھر کے دیے بھی بیرونی روشنیوں کے دست نگر ہو جائیں تو قسمت میں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ....
اپنی مٹّی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جا¶ گے