راولپنڈی (سلطان سکندر) پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان حکومت کو بچانے کے لیے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف کے رابطے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ملاقات کے دوران تعاون کرنے سے معذرت کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ ن کے ارکان کا فیصلہ ہے جمعیت تو پہلے ہی صوبے میں اپوزیشن میں ہے اس لیے وہ بھی تحریک عدم اعتماد میں شامل ہے ہم مرکز میں مسلم لیگ ن کے حلیف ضرور ہیں لیکن کے پی کے اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی صوبائی تنظیموں نے حکومت سازی اور سینیٹ الیکشن میں الگ سے فیصلے کئے تھے اس لئے جمعیت کی صوبائی تنظیم اپوزیشن میں شامل ہونے کی حیثیت سے اپنے طور پر فیصلے کرنے میں بااختیار ہے۔ ہفتہ کے روز یہاں خیابان سرسید میں جمعیت کے مقامی رہنما مولانا عبدالمجید ہزاروی کے بہنوئی قاری محمد زرین کی وفات پر تعزیت کرنے کے بعد نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بارے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم مرکز میں مسلم لیگ ن کے اتحادی ضروری ہیں لیکن صوبوں میں نہیں ابتدا میں جب حکومتیں بننے لگیں تو مسلم لیگ ن نے کہہ دیا تھا کہ وہ صوبے میں حکومت بنانے کی روا دار نہیں پھر دھرنے‘ سول نافرمانی اور استعفوں کے اعلان کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم لانے بارے مسلم لیگ (ن) کے تعاون کا عندیہ نہیں دیا بلکہ سینیٹ الیکشن پی ٹی آئی کا ساتھ دے کر جے یو آئی کو شکست دی اب وہ کس منہ سے تحریک عدم اعتماد میں تعاون طلب کرسکتی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہے جس کا سیاسی جماعتوں کو احساس نہیں ہے‘ ہر ایک سمجھتا ہے کہ الیکشن میں جانا ہے لیکن شاید مارچ میں سینیٹ اور جولائی میں جنرل الیکشن ہی نہ ہوں۔ اس سوال پر شریف برادران سعودی عرب سے کیسے واپس آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے برجستہ کہا ”وہ جہاز میں آئے ہیں اگر کوئی بات ہے تو ہمیں اس بارے اعتماد میں نہیں لیا۔ میڈیا کو اپنے ورق بھرنے ہیں ایک خاندان کے لوگ سعودی عرب گئے تھے ان کے خاندانی مسائل اور معاملات بھی ہوسکتے ہیں اور سعودی عرب اور شاہی خاندان سے ان کے ذاتی تعلقات بھی ہیں۔
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) بلوچستان کے وزیراعلٰی کے ترجمان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ نواب ثناءاللہ خان زہری استعفیٰ نہیں دیں گے ۔اس وقت بھی انہیں صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے پارٹی میں بغاوت کرنیوالے اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف باسٹھ تریسٹھ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی صوبے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتیں قومی سلامتی کے معاملات کا خیال رکھیں صوبہ حالت جنگ میں ہے دوران جنگ سیاسی قیادت کو بھی تبدیل نہیں کیا جاتا ۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس طے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں عسکری و سیاسی قیادت کے درمیان بہترین تعلقات ہیں مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صوبے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں قومی معاملات پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت اور پاک چین اقتصادی راہداری جیسے اہم معاملات کا وہ ادراک رکھتے ہیں جے یو آئی (ف) سے مذاکرات جاری ہیں ہفتہ کو بھی وزیر اعلٰی کا رابطہ ہوا ہے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے 9جنوری کو وزیر اعلٰی بلوچستان کو سرخروئی حاصل ہو گی انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان بہترین تعلقات ہیں عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششیں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی طرف سے کی گئی ہیں پارٹی قیادت صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ ہیں سینیٹ انتخابات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے 9جنوری کو ایسی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔