ریاست‘ سیاست اور عوام

ہمارے سیاستدانوں نے پاکستان کو سیاست کی درسگاہ بنا دیا ہے۔ اگر کسی نے سیاست سیکھنی ہو تو پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی بنائیں اور سڑکوں پر نکل کر سیاست شروع کر دیں۔ دراصل عوام کو بے وقوف بنانے کا فن یہی تو ہے جس کے بغیر آپ اسمبلی میں نہیں جا سکتے۔ پاکستان میں اتنی سیاسی پارٹیاں بن چکی ہیں کہ جن کا کوئی حساب ہی نہیں اور یہ سب پاکستان کی اور پاکستانی عوام کی خدمت کا خوب جذبہ رکھتی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کا ایک ہی منشور ہے کہ جتنے عوام جاہل رہیں گے‘ اتنے ہی ووٹ زیادہ ملیں گے۔ ویسے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارے سیاستدان بھی صرف الیکشن کے دنوں میں ہی عوام پر نچھاور ہوتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں غریب لوگوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے ہیں اور ان کے ہر دکھ درد میں شامل بھی ہوتے ہیں جبکہ پورے پانچ سال اس بے وقوف عوام کو کبھی پوچھتے بھی نہیں۔ خیر یہ سیاسی نظام تو ایسا ہی چلتا نظر آرہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی چلتا رہے گا۔ ہاں اگر صدارتی نظام آجائے تو شاید کوئی تبدیلی آجائے مگر ہمارے تمام سیاستدانوں کو صدارتی نظام میں عیاشیاں بھی تو کم ہو جائیں گی۔ جمہوریت تو اخراجات کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ ہر آنے والا منسٹر ایک نئی گاڑی چاہتا ہے اور سرکاری گھر بھی اسے درکار ہوتا ہے۔ان عوامی خدمت گاروں کی خدمت کی دنیا میں مثال بھی کم کم ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب منسٹر اپنی ذاتی گاڑی کیوں نہیں استعمال کر سکتے؟ اپنے ذاتی گھر میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ ان سب کے گھر والے اپنی ذاتی گاڑی میں ہی کیوں نہیں پھر سکتے؟ ان کو سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی کیوں درکارہے؟ کیا ان کیلئے قانون ختم ہوجاتا ہے؟ یہ بات صرف ان منسٹروں کیلئے نہیں یہ بات کسی بھی سرکاری افسر کیلئے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ سب کے ساتھ امتیازی سلوک ہونا چاہئے۔ ہمیں اگر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا واقعی خیال ہے اور ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو کچھ تو قربانی دینا ہوگی۔ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اداروں کو ٹھیک کرنا ہوگا‘ صبح سے شام تک میڈیا پر سیاستدانوں کی بحث سے آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ عوام ان لوگوں کے چینلز پر روز مباحثے دیکھ دیکھ کر تھک چکی ہے۔ یہ سب وہی سیاستدان ہیں جس کا پلا بھاری دیکھتے ہیں اسی کی بین بجانے لگتے ہیں۔ اپنی تمام وفاداریاں اسی کو دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہاںیہ بھی کہنا ضروری ہے کہ جب ہمارے حکمران کرسی سے اترتے ہیں تو انہیں ملک کی قسمت بدلنے کا خیال آجاتا ہے ’’کہ اگر اب ہم دوبارہ حکومت میںآئے تو چھ ماہ میں ملک کی قسمت بدل دیں گے۔‘‘ جب یہ لوگ حکومت میں ہوتے ہیں تو صرف اپنی قسمت بدلنے کا سوچتے ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان کو ایک سونے کی چڑیا سمجھ رکھا ہے۔ جب ان حکمرانوں پر مقدمے بنتے ہیں تو فوراً بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ان کی حالت اس قدر بری ہو جاتی ہے کہ ان سے چلنا بھی دشوار ہو جاتا ہے اور پھر عدالتوں سے رہائی کی التجا کرنے لگتے ہیں۔ جونہی رہائی ملتی ہے‘ یہ پھر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ خدا را! اب یہ سب کام بند کر دیں۔ قائداعظم کے ملک پاکستان پر رحم کریں۔ کبھی کسی نے کہا کہ یہ ملک قائداعظم محمد علی جناح کا ہے؟ نہیں کبھی نہیں۔ میرے لئے وہ دن بے حد حیران کن تھا جب ترکی ایئرپورٹ پر میں نے پاسپورٹ امیگریشن کیلئے دیا تو اس ترک آفیسر نے پاسپورٹ دیکھتے ہی کہا ’’آپ جناح کے ملک پاکستان سے آئی ہیں۔‘‘ اس کے بعد پورے استنبول میں مجھے اسی نام سے متعارف کروایا جاتا رہا کہ یہ برادر کنٹری جناح کے پاکستان سے آئی ہیں۔ کاش ہم بھی اپنے خوبصورت پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی اسی طرح قدر کریں اپنے اس ملک سے محبت کریں اور اسے دنیا کا بہترین ملک بنا دیں۔
ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے حد وسائل سے نوازا ہے۔ انہیں وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایمانداری کو اپنائیں۔ رشوت کا بازار جو آج بھی گرم ہے‘ ختم کریں۔ اپنے ملک کے خاندانی اور مخلص لوگوں کی قدر کریں اور انہیں آگے لیکر آئیں۔ دولت کمانے کیلئے اپنی زرعی زمینوں کو ختم کرنے کی بجائے اپنی زراعت کو استحکام بخشیں اور اس کی ہریالی کو قائم و دائم رکھیں۔
حکومت کو چاہئے کہ جس جس کے پاس کالادھن ہے‘ اسے باہر نکلوائیں۔ اس لوٹی ہوئی دولت سے ملک میں انڈسٹری لگائی جائے۔ انڈسٹری لگائے جانے کے بعد دوسال تک انہیں ٹیکس چھوٹ دیدے جس کے بعد وہ لوگ خودبخود ٹیکس نیٹ ورک میں آجائیں گے۔ اگر حکومت ان کے ساتھ سختی کرے گی تو یہ لوگ اپنی دولت کبھی باہر نہیں نکالیں گے۔ ملک میں ہر طرح کی معاشی سرگرمی بند ہو جائے گی۔ معاشی بدحالی عام ہو جائے گی اور بیروزگاری قابو سے باہر ہو جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...