امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے اس کے عسکری اڈوں، فوجیوں یا اثاثوں پرحملہ کیا تو تہران کی 52 تنصیبات کو فوری طور پر نشانہ بنایا جائے گا۔ صدر کا کہنا تھا کہ 1979 میں تہران میں 52 امریکیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا، امریکہ مزید خطرہ نہیں چاہتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ میں ہزاروں افواج کے بھیجنے سمیت ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے اقدام کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔
ٹامپا سے فلاڈلفیا اور سان فرانسسکو سے نیو یارک تک پلے کارڈز اٹھائے مظاہرین نے جنگ مخالف نعرے بازی کی۔ بغداد میں امریکہ کے فضائی حملے میں مارے جانیوالے ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے کے موقع پر اتوار کو ایران کی سڑکوں پر عوام کا سیلاب امڈآیا۔ایران اور امریکہ پاکستان کے کئی شہروں میں جلوس نکالے گئے۔عرب نیوز کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957ء کو ایرانی صوبہ کرمان میں پیدا ہوئے تھے۔ کسان گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سلیمانی کرمان شہر میں مزدوری بھی کرتے رہے۔ بعدازاں وہ کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر رہے۔ اس دوران وہ مقامی جم میں ویٹ لفٹنگ کرتے تھے۔ اس عرصے کے دوران ان کی دلچسپی کا مرکز ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ علی خمینی کے خطبات تھے۔قاسم سلیمانی نے 1979 میں انقلابِ ایران کے بعد پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ابتدائی طور پر وہ شمالی مغربی ایران میں تعینات رہے۔ اس دوران انہوں نے ایران کے شمالی علاقوں میں کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران، عراق جنگ کے دوران انہوں نے کم عمری میں 41 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے بہت جلد پاسدرانِ انقلاب میں اپنی جگہ بنائی اور عراق کی جانب سے قبضے میں لیے گئے ایران کے کئی علاقے بازیاب کرائے۔ 2003 میں امریکا نے جب وہاں برسراقتدار آمر اور ایران کے دیرینہ دشمن صدام حسین کو ہٹانے کے لیے حملہ کیا تو وہاں پر بھی القدس فورس کے اہلکار بھیجے گئے۔ جب شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے لڑنے کے ساتھ انہوں نے عراق اور شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والی فورسز کو مشورے دینے شروع کیے۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی نے زیر کمانڈ اہلکاروں کو تربیت دی کہ امریکی حملے کے بعد وہاں موجود امریکی اہلکاروں کے خلاف حملے کیے جا سکتے ہیں جس میں بالخصوص سڑک کنارے بم نصب کرنا شامل تھا۔امریکی میڈیا کے مطابق جنرل سلیمانی زیادہ تر ایرانیوں میں مقبول تھے اورانہیں ایک ایسے ہیرو کے طور پر جانا جاتا تھا جو بیرون ملک ایران دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے دوران جنرل سلیمانی نے طالبان کے ٹھکانوں کی نشان دہی میں امریکہ کی مدد بھی کی۔امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر افسرنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کے بعد جنیوا میں ایرانی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں جنہیں قاسم سلیمانی نے بریف کیا تھا۔ امریکہ کے لیے کسی بھی ملک سے جنگ لڑنا مشکل نہیں ہے، کیونکہ اس کا جنگی بجٹ سالانہ 700 بلین ڈالرز کے قریب ہے مگر ایران کو سب سے بڑا فائدہ اس کا جغرافیہ ہے، پرشین گلف ایران کے اس حصے کے قریب ہے جہاں سے دنیا کی 40 فیصد تیل کی سپلائی گزرتی ہے اگر ذرا سا تنازعہ کھڑاہوتا ہے تو اس سے تیل کی سپلائی متاثر ہوگی، جب سپلائی متاثرہوگی تو تیل کی دنیا بھر میں قیمتیں اوپر جائیں گی اور اگر یہ تنازعہ جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے تو پوری دنیا کی اکانومی متاثرہوگی۔علاوہ ازیں امریکی افواج مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ایران انتقام میں ان کی لاشیں گرائے گا۔ایران حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پر حملہ بھی کرسکتا ہے، جس سے جنگ کے شعلے پورے مڈل ایسٹ جس میں سعودیہ عرب بھی شامل ہے، تک پہنچ کر ایک نا بجھنے والی آگ لگ جائے گی۔امریکہ کو جو افغانستان کی غاروں میں پھنس چکا ہے علم ہونا چاہئے کہ ایران کا جغرافیہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جس کے لیے امریکہ کو ٹریلین آف ڈالرز کا خرچہ برداشت کرنا پڑے گا۔ایران اپنا نیوکلیئر پروگرام تیز کرکے نیوکلیئر بھی بنائے گا، جس سے ایران ایک نیوکلیئر اسٹیٹ بن کر امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ٹرمپ کے بیانات جلتی پر تیل کا کام دے رہے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ امریکہ اور ایران کاتنازعہ ایران سے زیادہ امریکہ کے لیے عذاب بنے گا۔امریکہ ایران جنگ امریکی اکانومی کو برباد کردے گی۔ امریکہ نے افغان عراق جنگوں سے سبق سیکھا ہوتا تو ایران سے متھا لگانے کا جرم نہ کرتا۔رعونت کے نشے میں غرق سپر پاورز تاریخی بلنڈرز سے ہی تباہ و بر باد ہوا کرتی ہیں۔مودی اور ٹرمپ تباہی اور زوال کی ایک اور عبرتناک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ رہا پاکستان کا سوال تو امریکہ سے الجھ کر پاکستان کی اکانومی چار دن بھی نہیں چل سکتی۔ایران مخالف سعودی عرب اور امریکہ کو پاکستان کی ایران کی حمایت کسی صورت قبول نہیں۔اصل مسئلہ امت کا نہیں بلکہ اپنے دفاع کا ہے۔امت کا درد سعودی عرب کو نہیں کسی اسلامی ملک کو نہیں تو پاکستان بھی باپ بننے کی حیثیت میں نہیں۔ پہلے ہی نائن الیون واقعہ کی آڑ میں امریکہ کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکے ہیں اب امریکہ کی مزید کسی جنگ میں کودنے کی غلطی افورڈ نہیں کر سکتے۔صدر ٹرمپ عالمی جنگ کی جانب جا رہے ہیں۔ ان کی اس ایران مخالف پوزیشن کی امریکی اپوزیشن اور عوام بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکہ آگ سے کھیل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭