پالیسیاں اورشیخ چلی کی سوچ

جس روز سب کو سمجھ آ گئی کہ ترقی اور تبدیلی کی راہ کا سب سے بڑا پتھر پالیسی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے اور اس پر قابو پالیا گیا اسی دن سے ترقی کی منزل کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع ہو جائیں گے ،خود ستائی اپنی جگہ ہے مگراس کے باوجود آج ملک کوئی ایسی بھی بری حالت میں نہیں کہ اس کاغم لے کر بیٹھ جائیں اور آگے کی جانب دیکھنا ہی چھوڑ دیں ،حکومت کی جانب سے بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم ماضی کی راکھ کو کریدتے رہیں گے،ضرور ایسا کرتے رہیں مگر اس سے ترقی اور تبدیلی میں کیا مدد ملے گی ؟اس پر بھی روشنی ڈال دیا کریں ،نیب قوانین میں ترامیم کا حالیہ آرڈی نینس ہی دیکھ لیں ،18ماہ کے سیاسی احتساب نے کیا دیا ہے ،یہ تو پیچھے کی جانب دھکا لگ گیا، جو یہ کہا کرتے تھے کہ ’’مٹی پائو ،تے روٹی کھائو‘درست فلاسفی بیان کیا کرتے تھے ،کوئی نام بھی دیں لیں یا کوئی بھی جوازبیان کر دیں اصل یہی ہے قانون کا میکنزم ناکام ہوا ہے جس کا احساس بہت دیر کے بعدکیاگیا ، قانون میں کوئی خرابی نہیں ،ایشو اس کو بروئے کار لانے میں ہے،اب بھی وقت ہے کہ قانون کو حرکت میں لانے کے طریقہ کار اور اس کے غلط استعمال کے خلاف سخت سیف گارڈ ڈالیں جائیں ،ضروری نہیں کہ مقدمات کی پھرمار ہو ،وائٹ کالر کرائمز کے کسی ایک مقدمہ کومیرٹ پر تقاضوں کے مطابق ثابت کر دینے کی صلاحیت سب سے بڑی ڈیٹرینٹ بن سکتی ہے ،یہیں سے ہی اصل احتساب کا آغاز کیا جاسکتا ہے ،ورنہ ماضی سے تادم تحریر جو احتساب ہوئے ان کا ملک کو فائدہ کم اور احتساب کو ذیادہ نقصان ہوا،2013ء میں ملک کا ریونیو 18سے 19سو ارب کے درمیان تھا،5سال کے بعد جب نئی حکومت بن رہی تھی تو ملک کا ریونیو 3900ارب روپے ہو چکا تھا، یعنی 5سال میں ریونیو دوگنا ہو گیا ،2007 سے 2013تک 1900ارب روپے تک پہنچے ، یہ بھی پانچ سال میں دوگنا اضافہ ظاہر کر رہا ہے. اس کا مطلب ہے کہ 10سال میں آگے کی جانب بڑھے ضرور مگر کہیں کوئی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے توقعات پوری نہیں ہوتی اور ہم نالائق نااہل،کرپٹ اورہر طرح کے کوسنے دینے کے نفسیاتی شغل میں مبتلا رہتے ہیں ،یہی رحجان آئندہ پانچ سال جس میں سے ڈیڑھ سال گذر چکا ہے جاری رہے گا،پانچ سال کے آخری روز بس یہی کہہ سکیں گے کہ 4ہزار سے 8ہزار پر آگئے ،مگر اس بار یہ منزل ایسی آسان نہیں ہے کیونکہ بد قسمتی سے راہ چلتے چلتے بموں کو لات مارنے کی عادت ہے اس نے سفرمشکل بنا دیا،ورنہ کچھ نہ کر کے بھی اتنا کچھ اپنے آپ ہو جانا تھا ،اب اس وقت موقع نہیں کہ ان بمبوں کاتذکرہ شروع کر دیا جائے جن کو ’’ شوق لات چلائی‘‘ میں لات رسید ہو گئی ، جس کے باعث سلگتے مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں ،ایف بی آر میں کوئی خرابی نہیں ہے ،یہ تو 2007 میں سات سو ارب سے 4ہزار ارب پر لے آیا،وہی 12سے چودہ فیصد کی سالانہ گروتھ کی اوسط پہلے بھی تھی اب بھی رہے گی ،مسلہ پھر پالیسی کے نفاز میں ہے ،مگر اس بار چیز اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ جب مالی سال2019-20 کی معاشی پالیسی طے کی جارہی تھی توواضح تھا کہ کرنٹ اکائونٹ کے خسارہ کو کم کرنا ہے ،جس کے لئے درآمدات میں کمی کے لئے ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات کئے جارہے تھے تو کسٹمز ڈیوٹی کے ریونیو اہداف کو بہت ہی کم رکھنا چاہئے تھا ،اب جب اسی کسٹمز ڈیوٹی میں مار پڑ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مونیٹری پالیسی،ٹیرف پالیسی اور ریونیو کی پالیسی میں کہیں تال میل نہیں تھا بس’‘ کتابی بابے‘‘کتابوں میں لکھی تھیوریز کو نافذ کرنے میں تلے ہوئے تھے،ایف بی آر کیا کرئے ،کہیں پالیسی میں نقص ہے اور کہیں اس پر عمل میں رکاوٹیں ہیں ،اب تو ماہرین معاشیات نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس وقت ریونیو کی جو رفتار ہے اگر اس کو تیز نہ کیا گیا تو 30جون تک 500ارب روپے کا شارٹ فال ہو گا جو اس حکومت کے دور میں تاریخ کا بڑا شارٹ فال سمجھا جائے گا ،اس ماحول میں ورثہ میں ملنے والے ریونیو کو 8ہزار ارب تک لے کر جا آسان نہیں ہے ،یہ چیلنج اس وقت اور بھی کڑا ہو جاتا ہے جب دنیا کے بڑے ادارے بار بار یہ پیشن

ای پیپر دی نیشن